اَوَلَا
یَعْلَمُوْنَ
اَنَّ
اللّٰهَ
یَعْلَمُ
مَا
یُسِرُّوْنَ
وَمَا
یُعْلِنُوْنَ
۟
3

چناچہ قرآن کریم آگے بڑھنے سے پہلے ان کی اس طرز فکر اور طرز عمل پر تعجب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتا ۔

أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ” اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ وہ کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ۔ اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ “

اب قرآن کریم ایک دوسرے پہلو سے مسلمانوں کے سامنے بنی اسرائیل کے حالات پیش کرتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ایک طبقہ تو ان جاہلوں اور ان پڑھ لوگوں کا ہے جو ان پر نازل ہونے والی کتاب الٰہی کا کوئی علم نہیں رکھتا۔ اس دماغ میں صرف اوہام و خرافات اور ظن وتخمین اور خوش آئند آرزوئیں ہی بسی ہوئی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی پسندیدہ اور برگزیدہ قوم ہیں اور جو برے عمل بھی وہ کریں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام گناہ معاف کردئیے ہیں ، اس لئے یہ اپنے ذہن میں بسہولت نجات پاجانے کی امید لئے بیٹھے ہیں۔

دوسرا وہ فریق ہے جو اس جہالت سے خوب ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے ، وہ بےدھڑک اپنی جانب سے آیات ونصوص گھڑتا ہے ۔ اپنی مفید مطلب تاویلات کرکے اللہ کے مفہوم کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے ۔ جس چیز کو چاہتا ہے ، چھپالیتا ہے ۔ اور جس چیز کو چاہتا ہے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے ۔ خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی باتوں کے بارے میں یہ مشہور کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور یہ سب کام وہ دنیا کے ختم ہوجانے والے منافع اور ذاتی مفادات کے لئے کرتا ہے یا اس لئے کرتا ہے کہ اس کی پیشوائی اور برتری برقرار رہے ۔