یہاں آکرہم قصہ بقرۃ کے ایک دوسرے پہلو تک آپہنچتے ہیں۔ یہ پہلو اللہ تعالیٰ کی قدرت بےپایاں کا اظہارکررہا ہے ۔ اس سے موت وحیات کی حقیقت اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی کیفیت معلوم ہوتی ہے اور یہاں اسلوب کلام ، کہانی کے انداز کے بجائے خطاب کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لئے گائے کو ذبح کرنے کا حکم کی حکمت کھول دیتے ہیں ۔ واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا تھا ، اور ہر آدمی اپنے آپ کو اس قتل کے الزام سے بری قرار دے کر دوسرے پر الزام لگاتا تھا اور کوئی گواہ نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت نے چاہا کہ مقتول خود صداقت کو ظاہر کردے اور اس شہادت حق سے پہلے گائے کا ذبح کیا جانا دراصل ادائیگی شہادت کا ایک ظاہری ذریعہ تھا ۔ یوں کہ بقرہ کے گوشت اسے مارتے ہی اس نے زندہ ہوجانا تھا ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا ، انہوں نے اسے ذبح شدہ گائے کے ایک ٹکڑے سے مارا اور وہ زندہ ہوگیا ۔ تاکہ وہ خود اپنے قاتل کی نشاندہی کردے اور ان تمام شکوک و شبہات کو ختم کردے جو اس کے قتل کے مسئلے میں پھیلے ہوئے تھے ، اور یوں صداقت محکم ترین دلائل کے ساتھ سامنے آجائے ۔ حق حق ہوجائے اور باطل باطل ۔ دودھ ، دودھ اور پانی ، پانی ۔
سوال یہ ہے کہ اس ظاہری وسیلہ اور سبب کیا ضرورت تھی ؟ اللہ تعالیٰ تو اس کے بغیر بھی مردوں کو زندہ کرسکتا ہے ، بغیر کسی وسیلے اور ذریعے کے بھی ۔ سوال یہ ہے کہ
ذبح شدہ گائے اور زندہ کئے جانے والے مقتول کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟