دوسری جگہ قرآن کریم نے سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ “ اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھئے ، جو سمندر کے کنارے واقع تھی ۔ انہیں یاد دلاؤ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ “ (7۔ 213)
بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ان کے آرام کے لئے ایک دن کو مقدس قرار دیا جائے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سبت کے دن کو مقدس قرار دیا اور اس دن دنیاوی معاش کے لئے کوئی کام کرنا حرام قرار دیا۔ اس کے بعد انہیں اس آزمائش میں ڈالا کہ ہفتے کے دن تمام مچھلیاں بڑی کثرت سے دریا کی سطح پر نکل آتیں اور دسرے دنوں میں غائب ہوتیں۔ یہ ایسی آزمائش تھی ، جس کے مقابلے میں یہود نہ ٹھہر سکے ۔ ان کے لئے ثابت قدمی کیسے ممکن تھی ۔ ایسا بہترین شکار بالکل قریب مل رہا تھا ۔ انہیں اس کے سوا اور کیا چاہئے تھا ۔ کیا محض عہدوپیمان کی خاطر وہ اس شکارکو جانے دیتے ۔ یہودیوں سے بہرحال یہ کام نہیں ہونے کا ۔ یہ تو ان کے مزاج کے خلاف ہے ۔
فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ” ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندربن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے دھتکار پھٹکار تم پر پڑے۔ “
اللہ کا عہد تور کر بہرحال وہ اس سزا کے مستحق بن چکے تھے ۔ وہ اس بات کے مستحق تھے کہ حیوان بن جائیں کیونکہ انسان تو ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے اور وہ اس مقام سے نیچے گرگئے تھے۔
ظاہر ہے کوئی حیوان اپنے پیٹ سے بلند ہوکر سوچ نہیں سکتا ۔ چناچہ جونہی انہوں نے انسان کی خصوصیت اولیٰ یعنی ٹھوس اور بلند ارادہ اور خداوند کریم کے ساتھ کئے ہوئے عہد پر قائم رہنے کا عزم صمیم ........ کو ترک کیا تو وہ مقام انسایت سے گر کر بہمیت کے درجے میں آگئے۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے جسم بھی بندر کے جسموں میں تبدیل ہوگئے ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ روح ، فکر ، شعور اور مزاج کے اعتبار سے وہ بندر بن گئے ہوں اور بندروں جیسی حرکتیں کرتے ہوں کیونکہ فکر کا پر تو ہمیشہ چہرے ، شکل وہیبت اور حرکات سکنات پر پڑتا ہے ۔ انسان کی ظاہری حالت پر اس کی فکر کے گہرے اثرات پڑتے ہیں ۔