اِنَّ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَالَّذِیْنَ
هَادُوْا
وَالنَّصٰرٰی
وَالصّٰبِـِٕیْنَ
مَنْ
اٰمَنَ
بِاللّٰهِ
وَالْیَوْمِ
الْاٰخِرِ
وَعَمِلَ
صَالِحًا
فَلَهُمْ
اَجْرُهُمْ
عِنْدَ
رَبِّهِمْ ۪ۚ
وَلَا
خَوْفٌ
عَلَیْهِمْ
وَلَا
هُمْ
یَحْزَنُوْنَ
۟
3

آیت میں چار گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک، مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔دوسرے ، یہود جو اپنے کو حضرت موسی ؑکی امت کہتے ہیں۔ تیسرے، نصاریٰ جو حضرت مسیح ؑکی امت ہونے کے دعویدار ہیں۔ چوتھے، صابی جو اپنے کو حضرت یحییٰ ؑکی امت بتاتے تھے اور قدیم زمانے میں عراق کے علاقہ میں آباد تھے۔ وہ اہلِ کتاب تھے اور کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ مگر اب صابی فرقہ ختم ہوچکا ہے۔ دنیا میں اب اس کا کہیں وجود نہیں۔

یہاں مسلمانوں کو الگ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کا اور دوسرے پیغمبروں سے نسبت رکھنے والی امتوں کا ذکر ایک ساتھ کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گروہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ گروہ کے اعتبار سے ایک گروہ اور دوسرے گروہ میں کوئی فرق نہیں۔ سب کی نجات کا ایک ہی محکم اصول ہے، اور وہ ہے ایمان اور عمل صالح۔ کوئی گروہ اپنے کو خواہ مسلمان کہتا ہو یا وہ اپنے کو یہودی یا مسیحی یا صابی کہے، ان میں سے کوئی بھی محض ایک مخصوص گروہ ہونے کی بنا پر خداکے یہاں کوئی خصوصی درجہ نہیں رکھتا۔ درجہ کا اعتبار اس پر ہے کہ کس نے خدا کی منشا کے مطابق اپنی عملی زندگی کو ڈھالا۔

نبی کے زمانہ میں جب اس کے ماننے والوں کا گروہ بنتا ہے تو اس کی بنیاد ہمیشہ ایمان اور عمل صالح پر ہوتی ہے۔ اس وقت ایساہوتا ہے کہ نبی کی پکار سن کر کچھ لوگوں کے اندر ذہنی اور فکری انقلاب آتاہے۔ ان کے اندر ایک نیا عزم جاگتا ہے۔ ان کی زندگی کا نقشہ جو اب تک ذاتی خواہشوں کی بنیاد پر چل رہا تھا وہ خدائی تعلیمات کی بنیاد پر قائم ہوتاہے۔ یہی لوگ حقیقی معنوں میں نبی کی امت ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نبی کی زبان سے آخرت کی نعمتوں کی بشارت دی جاتی ہے۔

مگر بعد کی نسلوں میں صورت حال بدل جاتی ہے۔ اب خدا کا دین ان کے لیے ایک قسم کی قومی روایت بن جاتا ہے۔ جو بشارتیں ایمان وعمل کی بنیاد پر دی گئی تھیں ان کو محض گروہی تعلق کا نتیجہ سمجھ لیا جاتاہے۔ وہ گمان کرلیتے ہیں کہ ان کے گروہ کا اللہ سے کوئی خاص رشتہ ہے جو دوسرے لوگوں سے نہیں ہے۔ جو شخص اس مخصوص گروہ سے تعلق رکھے، خواہ عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے وہ کیسا ہی ہو، بہر حال اس کی نجات ہو کررہے گی۔ جنت اس کے اپنے گروہ کے لیے ہے اور جہنم صرف دوسرے گروہوں کے لیے۔

مگر اللہ کا کسی گروہ سے خصوصی رشتہ نہیں۔ اللہ کے یہاں جو کچھ اعتبار ہے وہ صرف اس بات کا ہے کہ آدمی اپنے فکر اور عمل میں کیسا ہے۔ آخرت میں آدمی کے انجام کا فیصلہ اس کے حقیقی کردار کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ گروہی نسبتوں کی بنیاد پر۔