You are reading a tafsir for the group of verses 2:6 to 2:7
اِنَّ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
سَوَآءٌ
عَلَیْهِمْ
ءَاَنْذَرْتَهُمْ
اَمْ
لَمْ
تُنْذِرْهُمْ
لَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
خَتَمَ
اللّٰهُ
عَلٰی
قُلُوْبِهِمْ
وَعَلٰی
سَمْعِهِمْ ؕ
وَعَلٰۤی
اَبْصَارِهِمْ
غِشَاوَةٌ ؗ
وَّلَهُمْ
عَذَابٌ
عَظِیْمٌ
۟۠
3

ایک شخص اپنی آنکھ کو بند کرلے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی وہ سورج کو نہ دیکھے گا۔ کوئی شخص اپنے کان میں روئی ڈال لے توکان رکھتے ہوئے بھی وہ باہر کی آواز کو نہیںسنے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ حق کا بھی ہے۔ حق کا اعلان خواہ کتنا ہی واضح صورت میں ہورہا ہو مگر کسی کے لیے وہ قابلِ فہم یا قابلِ قبول اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے اپنے دل کے دروازے کھلا رکھے۔ جو شخص اپنے دل کے دروازے بند کرلے، اس کے لیے کائنات میں خدا کی خاموش پکار اور داعی کی زبان سے اس کا لفظی اعلان دونوں بے سود ثابت ہوں گے۔

حق کی دعوت جب اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو وہ اتنی زیادہ مبنی بر حقیقت اور اتنی زیادہ مطابقِ فطرت ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس کی نوعیت کو سمجھنے سے عاجز نہیں رہ سکتا۔ جو شخص بھی کھلے ذہن سے اس کو دیکھے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ عین حق ہے۔ مگر اُس وقت عملی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف وقت کا ڈھانچہ ہوتا ہے جو صدیوں کے عمل سے ایک خاص صورت میں قائم ہوجاتا ہے۔ اس ڈھانچہ کے تحت کچھ مذہبی یا غیر مذہبی گدیاں بن جاتی ہیں جن پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ عزت و شہرت کی صورتیں رائج ہوجاتی ہیں جن کے جھنڈے اٹھا کر کچھ لو گ وقت کے اکابر کا مقام حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ کاروبار اور مفادات قائم ہوجاتے ہیں جن کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرکے بہت سے لوگ اطمینان کی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں جب ایک غیر معروف کونے سے اللہ اپنے ایک بندے کو کھڑا کرتا ہے اور اس کی زبان سے اپنی مرضی کا اعلان کراتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو اپنی بنی بنائی دنیا بھنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ حق کے پیغام کی تمام تر صداقت کے باوجود دو چیزیں ان کے لیے اس کو صحیح طورپر سمجھنے میںرکاوٹ بن جاتی ہیں— کبر اوردنیا پرستی۔ جو لوگ مروجہ ڈھانچہ میں بڑائی کے مقامات پر بیٹھے ہوئے ہوں، ان کو ایک ’’چھوٹے آدمی‘‘ کی بات ماننے میںاپنی عزت خطرہ میں پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ احساس ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات کو جگادیتا ہے۔ داعی کو وہ اپنے مقابلہ میں حقیر سمجھ کر اس کی دعوت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح دنیوی مفادات کا سوال بھی قبولِ حق میںرکاوٹ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ حق کا داعی مروجہ سماجي روايت کا نمائندہ نہیںہوتا۔ وہ ایک نئی اور غیر مانوس آواز کو لے کر اٹھتا ہے، اس لیے اس کو ماننے کی صورت میں لوگوں کو اپنے مفادات کا ڈھانچہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔

یہی وہ کنڈیشننگ کی حالت ہے جس کو قرآن میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیاہے۔ جو لوگ دعوت حق کے معاملہ کو سنجیدہ معاملہ نہ سمجھیں ، جو گھمنڈ اور دنیا پرستی کی نفسیات میں مبتلا ہوں ، ان کے ذہن کے اوپر ایسے غیر محسوس پردے پڑ جاتے ہیں جو حق بات کو ان کے ذہن میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ کسی چیز کے بارے میں آدمی کے اندر مخالفانہ نفسیات جاگ اٹھیں تو اس کے بعد وہ اس کی معقولیت کو سمجھ نہیں پاتا۔ خواہ اس کے حق میں کتنے ہی واضح دلائل پیش کیے جارہے ہوں ۔