You are reading a tafsir for the group of verses 2:45 to 2:46
وَاسْتَعِیْنُوْا
بِالصَّبْرِ
وَالصَّلٰوةِ ؕ
وَاِنَّهَا
لَكَبِیْرَةٌ
اِلَّا
عَلَی
الْخٰشِعِیْنَ
۟ۙ
الَّذِیْنَ
یَظُنُّوْنَ
اَنَّهُمْ
مُّلٰقُوْا
رَبِّهِمْ
وَاَنَّهُمْ
اِلَیْهِ
رٰجِعُوْنَ
۟۠
3

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

بیشک نماز اور صبر سے مدد لو ، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے ، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لئے مشکل نہیں ہے ، جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ “

میں سمجھا ہوں کہ انہا کی ضمیر شان ہے (یعنی کسی فرد کی طرف اشارہ نہیں بلکہ صورت حال کی طرف اشارہ ہے) یعنی صورت حال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اعتراف حق کی دعوت دینا ، جب کہ اس کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی ہوں ، بڑامشکل اور جاں گسل کام ہے ، یہ صرف ان بزرگوں کے لئے آسان ہے جو اپنے دلوں میں اللہ کی خشیت رکھتے ہوں اور اس کے مطیع فرمان ہو۔ جنہیں اللہ کی خشیت اور اس کے تقویٰ کا اچھی طرح شعور ہو ، اور جنہیں پورا یقین ہو کہ انہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صبر وثبات سے مددلینے کی اشد ضرورت انسان کو بار بار پیش آتی ہے ۔ یہ ہر مصیبت اور مشقت کا درماں ہے ۔ یہ ہر مشکل کا حل ہے اور انسان کے لئے مشکل ترین کام یہ ہے کہ قیادت اور سیاست کے منصب سے نیچے اترآئے ، حق وسچائی کی خاطر اپنے مفادات اور کسب وکمائی پر لات ماردے اور سب چیزوں سے بےنیاز ہوکر حق کا اعتراف کرے اور اس کے تابع ہوجائے ۔

سوال یہ ہے کہ انسان اس کام میں نماز سے کس طرح مددلے ؟

نماز درحقیقت بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک خاص ملاقات ہے ۔ اس سے دل غذا لیتا ہے اور روح ایک خاص تعلق کا احساس کرتی ہے ۔ اس کے اندر نفس انسانی کے لئے وہ سروسامان ہے ، جو دنیا کے تمام مال ومتاع سے زیادہ قیمتی ہے ۔ نبی ﷺ کی حالت یہ تھی کہ جب کوئی معاملہ انہیں پریشان کرتا تو آپ نماز کی طرف لپکتے تھے ، حالانکہ آپ ﷺ کا حال یہ تھا اپنے رب سے ، آپ ﷺ ہر وقت جڑے رہتے تھے ، آپ کی روح ہر وقت وحی اور الہام سے مربوط تھی ۔ سرچشمہ خیر و برکت اب بھی ہر مومن کی دسترس میں ہے ، جسے زاد راہ کی طلب ہو ، جو سخت گرمی میں شراب بارد کا خواہاں ہو ، جو ایسے حال میں مدد کا طلب گار ہو ، جب ہر قسم کی مدد منقطع ہوگئی ہو اسے زاد راہ کی ضرورت ایسے حال میں پیش آئے جبکہ اس کا توشہ دان خالی ہو۔

اللہ کی طرف پلٹ کر جانے کا یقین (قرآن کریم میں بارہا ظن اور اس کے مشتقات یقین کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ نیز عربی زبان میں بھی علم العموم ظن کا استعمال یقین میں ہوتا ہے) اور ہر معاملے میں پلٹ کر اس کی طرف جانے کا یقین ہی انسان کے اندر صبرواستقلال پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ اور بھلائی کی حس اسی پر موقوف ہے ۔ دنیاوی اقدار اور اخروی اقتدار کے درمیان صحیح توازن اسی یقین کا مرہون منت ہے ۔ ان اقدار کا توازن جب درست ہوجاتا ہے ۔ ترازو کی ڈنڈی جب سیدھی ہوجاتی ہے تو پھر انسان کو یہ تمام دنیا ، متاع قلیل اور ایک حقیر چیزنظر آتی ہے ۔ تب جاکر آخرت صحیح نظر آتی ہے اور پھر کوئی عقلمند آدمی اسے ترجیح دینے اور اختیار کرنے میں ایک لمحہ بھر تردد نہیں کرتا۔

جب انسان اس نہج پر قرآن کریم میں غوروفکر کرتا ہے تو یہ ہدایات جو ابتدا میں بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں ، سب کے لئے دائمی ہدایات بن جاتی ہیں ۔

چناچہ بنی اسرائیل کو دوبارہ پکارتے ہوئے ، دوبارہ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے اور آنے والی تفصیلات سے پہلے ، اجمالاً انہیں آنے والی گھڑی سے ڈرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ انہیں اس طرح خطاب کرتے ہیں ۔