فَاَزَلَّهُمَا
الشَّیْطٰنُ
عَنْهَا
فَاَخْرَجَهُمَا
مِمَّا
كَانَا
فِیْهِ ۪
وَقُلْنَا
اهْبِطُوْا
بَعْضُكُمْ
لِبَعْضٍ
عَدُوٌّ ۚ
وَلَكُمْ
فِی
الْاَرْضِ
مُسْتَقَرٌّ
وَّمَتَاعٌ
اِلٰی
حِیْنٍ
۟
3

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ” آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے ۔ “ ........ ذرا تعبیر کا شاہ کار دیکھئے ۔ شیطان نے انہیں پھسلایا ۔ “ پھسلانے کا لفظ ہی پوری صور تحال کی تصویر کھینچ دیتا ہے ۔ گویا ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں کہ شیطان انہیں دھکیل دھکیل کر جنت سے نکالنے کی کوشش کررہا ہے ۔ گویا وہ اچانک ان کی ثابت قدمی کو دھکا دیتا ہے اور وہ گرجاتے ہیں اور نیچے آرہتے ہیں ۔

یہاں آدم اور ابلیس کشمکش کا پہلاتجربہ مکمل ہوجاتا ہے ۔ آدم (علیہ السلام) اپنے عہد کو بھول جاتے ہیں ‘ وہ اس کے بھٹکانے کے سامنے کمزور پڑجاتے ہیں ۔ اللہ کا حکم سچائی بن کر سامنے آتا ہے اور قضائے الٰہی کا اعلان یوں ہوتا ہے ۔

وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ” ہم نے حکم دیا کہ اب تم یہاں سے اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔ “ یہ اعلان تھا کہ اب آدم وابلیس کا معرکہ اپنی مقرر جگہ یعنی اس زمین پر شروع ہوجانا ہے۔ اور اب یہ معرکہ قیامت تک یوں ہی برپا رہے گا ۔

آدم (علیہ السلام) گرنے کے بعد اب سنبھلتے ہیں اور اٹھتے ہیں ‘ کیونکہ گرنا اور اٹھنا فطرت انسانی ہے ۔ اب اللہ کی رحمت انہیں اپنے سایہ رحمت وعاطفت میں لے لیتی ہے اور جو بھی اللہ کی رحمت کے دامن میں پناہ لے اور اس کی چوکھٹ پر آگرے یہ رحمت بےپایاں ہمیشہ اسے ڈھانپ لیا کرتی ہے ۔