وَقُلْنَا
یٰۤاٰدَمُ
اسْكُنْ
اَنْتَ
وَزَوْجُكَ
الْجَنَّةَ
وَكُلَا
مِنْهَا
رَغَدًا
حَیْثُ
شِئْتُمَا ۪
وَلَا
تَقْرَبَا
هٰذِهِ
الشَّجَرَةَ
فَتَكُوْنَا
مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
3

اس تقریب کے بعد اب ہمارے سامنے میدان کارزار ہے جس میں خلیفہ شر ‘ ابلیس ‘ اور خلیفہ خدا انسان ہے اور دونوں کے درمیان مسلسل جنگ ہورہی ہے ۔ یہ جنگ درحقیقت انسانی ضمیر اور اس کے دل و دماغ کے میدانوں میں لڑی جارہی ہے اور اس میں وہی انسان کامیاب ہوتے ہیں جو پختہ ارادے کے مالک ہوتے ہیں ۔ وہی سرخرو ہوتے ہیں جو اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان اپنی خواہشات نفس کا بندہ بنتا چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے دورہوتا جاتا ہے۔ شر کی قوتوں کو پیش قدمی حاصل ہوتی جاتی ہے۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ” پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوں گے ........ “۔ آدم وحوا کے لئے جنت کے تمام پھل جائز قرار دیئے گئے ‘ صرف ایک درخت کو مستثنیٰ رکھا گیا۔

صرف ایک درخت ........ شاید اس میں یہ اشارہ تھا کہ زمین میں نسل انسانی حلال و حرام کے قیود کی پابند ہوگی ‘ کیونکہ حدودوقیود کے بغیرآزاد اور خود مختار ارادہ کیونکر پیدا ہوسکتا ہے اور ایک متحرک بالارادہ انسان اور ایک مجبور حیوان کے درمیان فرق کیونکر ہوسکتا ہے ۔ اس کے سوا تو اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد شدہ حدود وقیود کی پابندی کے سلسلے میں انسان کو آزمایا جائے ۔ یہ قوت ارادہ ہی ہے جو ایک حقیقی انسان اور ایک انسان نماحیوان کے درمیان فرق کردیتی ہے جو مویشیوں کی طرح دنیا میں چرتا پھرتا ہے اور بس۔