آیت 31 وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا مفسرّین کا تقریباً اجماع ہے کہ اس سے مراد تمام اشیاء کے نام ہیں اور تمام اشیاء کے ناموں سے مراد ان کی حقیقت کا علم ہے۔ آپ انسانی علم Human Knowledge کا تجزیہ کریں تو وہ یہی ہے کہ انسان ایک چیز کو پہچانتا ہے ‘ پھر اس کا ایک نام رکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اصطلاح term قائم کرتا ہے۔ وہ اس نام اور اس اصطلاح کے حوالے سے اس چیز کے بارے میں بہت سے حقائق کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام نام سکھا دیے۔ گویا کل مادّی کائنات کے اندر جو کچھ وجود میں آنے والا تھا ‘ ان سب کی حقیقت سے حضرت آدم علیہ السلام کو امکانی طور پر potentially آگاہ کردیا۔ یہ انسان کا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو اسے سمع و بصر اور عقل و دماغ سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو حاصل ہونے والے علم کے دو حصے ہیں۔ ایک الہامی علم Revealed Knowledge ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے بھیجتا ہے ‘ جبکہ ایک علم بالحواس یا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو انسان خود حاصل کرتا ہے۔ اس نے آنکھوں سے دیکھا ‘ کانوں سے سنا ‘ نتیجہ نکالا اور دماغ کے کمپیوٹر نے اس کو پراسیس کر کے اس نتیجے کو کہیں حافظے memory کے اندر محفوظ کرلیا۔ پھر کچھ اور دیکھا ‘ کچھ اور سنا ‘ کچھ چھو کر ‘ کچھ چکھ کر ‘ کچھ سونگھ کر معلوم ہوا اور کچھ اور نتیجہ نکلا تو اسے سابقہ یادداشت کے ساتھ tally کر کے نتیجہ نکالا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً بنی اسرائیل انسان کو یہ اکتسابی علم Acquired Knowledge تین چیزوں سے حاصل ہورہا ہے : سماعت ‘ بصارت اور عقل۔ عقل اس تمام sense data کو جو اسے مہیا ہوتا ہے ‘ حواس sense organs کے ذریعے سے پراسیس کرتی ہے اور فائدہ اخذ کرتی ہے۔ یہ علم ہے جو بالقوۃ potentially حضرت آدم علیہ السلام کو دے دیا گیا۔ اب اس کی exfoliation ہو رہی ہے اور درجہ بدرجہ وہ علم پھیل رہا ہے ‘ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ کہاں تک پہنچے گا ‘ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ! اس نصف صدی میں علم انسانی میں جو explosion ہوا ہے میں اور آپ اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس دانوں کو بھی اس کا ادراک و شعور نہیں ہے کہ انسانی علم نے کتنی بڑی زقند لگائی ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی لائن کے بارے میں تو جانتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگیا۔ مثلاً ایک سائنس دان صرف فزکس یا اس کی بھی کسی شاخ کے بارے میں جانتا ہے ‘ باقی دوسری شاخوں کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ یہ دور سپیشلائزیشن کا دور ہے ‘ لہٰذا علم کے میدان میں جو بڑا دھماکہ explosion ہوا ہے اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ایک چیز جو آج ایجاد ہوتی ہے چند دنوں کے اندر اندر اس کا نیا version آجاتا ہے اور یہ چیز متروک outdated ہوجاتی ہے۔ ابلاغ اور مواصلات communications کے اندر انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ آپ یہ سمجھئے کہ اقبال نے جو یہ شعر کبھی کہا تھا ‘ اس کی تعبیر قریب سے قریب تر آرہی ہے َ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے !اور یہ ”مہ کامل“ اس وقت بنے گا جب دجّال کی شکل اختیار کرے گا۔ دجّال وہ شخص ہوگا جو ان تمام قواعد طبیعیہ Physical Laws کے اوپر قابو پالے گا۔ جب چاہے گا ‘ جہاں چاہے گا بارش برسائے گا۔ وہ رزق کے تمام خزانے اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور اعلان کر دے گا کہ جو اس پر ایمان لائے گا اسی کو رزق ملے گا ‘ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ اس کی آواز پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ وہ چند دنوں کے اندر پوری دنیا کا چکر لگا لے گا۔ یہ ساری باتیں حدیث میں دجال کے بارے میں آئی ہیں۔ وہ آدم کے اس اکتسابی علم Acquired Knowledge کی اس حد کو پہنچ جائے گا کہ فطرت کے تمام اسرار mysteries اس پر منکشف ہوجائیں اور اسے قواعد طبیعیہ پر تصرفّ حاصل ہوجائے ‘ وہ انہیں harness کرلے ‘ قابو میں لے آئے اور انہیں استعمال کرے۔ انسان نے جو سب سے پہلا ذریعہ توانائی source of energy دریافت کیا وہ آگ تھا۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے کسی جدّ امجد نے دیکھا کہ کوئی چٹان اوپر سے گری ‘ پتھر سے پتھر ٹکرایا تو اس میں سے آگ کا شعلہ نکلا۔ اس کا یہ مشاہدہ آگ پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگیا کہ پتھروں کو آپس میں ٹکراؤ اور آگ پیدا کرلو۔ چناچہ آگ اس دور کی سب سے بڑی ایجاد اور اوّلین ذریعۂ توانائی تھی۔ اب وہ توانائی energy کہاں سے کہاں پہنچی ! پہلے اس آگ نے بھاپ کی شکل اختیار کی ‘ پھر ہم نے بجلی ایجاد کی اور اب ایٹمی توانائی Atomic Energy حاصل کرلی ہے اور ابھی نمعلوم اور کیا کیا حاصل ہونا ہے۔ واللہ اعلم ! ان تمام چیزوں کا تعلق خلافت ارضی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا فرشتوں کو بتایا گیا کہ آدم کو صرف اختیار ہی نہیں ‘ علم بھی دیا جا رہا ہے۔ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلآءِکَۃِ لا فَقَالَ اَنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰوؤلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا۔