وَاِذْ
قَالَ
رَبُّكَ
لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ
اِنِّیْ
جَاعِلٌ
فِی
الْاَرْضِ
خَلِیْفَةً ؕ
قَالُوْۤا
اَتَجْعَلُ
فِیْهَا
مَنْ
یُّفْسِدُ
فِیْهَا
وَیَسْفِكُ
الدِّمَآءَ ۚ
وَنَحْنُ
نُسَبِّحُ
بِحَمْدِكَ
وَنُقَدِّسُ
لَكَ ؕ
قَالَ
اِنِّیْۤ
اَعْلَمُ
مَا
لَا
تَعْلَمُوْنَ
۟
3

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأرْضِ خَلِيفَةً ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ تو معلوم ہوا کہ یہ عالم بالا کی خاص مشیئت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کئے جانے والے اس نئے موجود (انسان ) کو اس زمین کے تمام اختیارات دے دیئے جائیں ۔ اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور اس کائنات کے مقصد تخلیق اور اسے عدم سے وجود میں لانے کی غرض وغایت کا اظہار اور اس کے بروئے کار لانے کا کام اس انسان کے سپرد کردیا جائے اور اس انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب ، اس کی تبدیلی اور ترقی ، اس کے اندر پوشیدہ خزانوں کا کھوج لگانے اور اس خام ذخائر کا پتہ لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام میں لگادیاجائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہو اور انسان کی اس عظیم مہم کا ایک حصہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس انسان کے سپرد کی ۔

نیز استخلاف آدم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ نے اس جدید مخلوق (انسان) کے اندر ایسی پوشیدہ قوتیں ودیعت کی ہیں اور اسے ایسی استعداددی ہے جس کے ذریعے وہ اس زمین کے اندر پوشیدہ تمام قوتوں ، تمام مفید ذخیروں اور خام مواد کو کام میں لاسکتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ایسی اندرونی اور خفیہ طاقتیں دی ہیں جن کے ذریعے وہ اس منشاء خداوندی کو بروئے کار لاسکتا ہے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات پر حاوی ہونے والے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت اور اس انسان اور اس کی قوتوں پر نافذ ہونے والے قوانین شریعت کے درمیان مکمل توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تاکہ ان دونوں قوانین کے درمیان تصادم اور تضاد نہ ہو اور انسانی طاقت اور قوتیں اس عظیم کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہوجائے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اعزاز ہے جو اس کائنات کے اندر اور اس پورے کرہ ارض پر حضرت انسان کو دیا گیا ۔ یہ وہ شرف ہے جو انسان کے خالق رحیم اور خداوند کریم نے اس کے لئے پسند فرمایا اور کیا ہی بلند ہے یہ مقام ! اور تمام باتیں عالم بالا کے اس جلیل القدر اشارے سے معلوم ہوتی ہیں کہ ” میں زمین پر اپناخلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ بالخصوص جبکہ آج ہم چشم سر اور بصیرت دونوں سے عیاں دیکھ رہے ہیں کہ انسان نے اس کائنات میں یہ کام کیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی اس زمین میں یہتکوینی مقصد پورا کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا اور اس وسیع مملکت میں اسے اپنا خلیفہ بنایا گیا تھا۔

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ” انہوں نے عرض کیا ، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کی حمد وثناکے ساتھ ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ ملائکہ کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یا تو اس وقت موجودہ صورتحال سے آنے والی مخلوق کے بارے میں اندازہ کرلیا تھا یا اس سے پہلے زمین میں جو مخلوق بسائی گئی تھی اس کے تجربات کی روشنی میں انہوں نے یہ بات کہی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی خداد بصیرت کے ذریعے معلوم کرلیا ہو کہ آنے والی مخلوق کسی ہوگی ؟ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمین میں انسانی زندگی کے لئے جو ضروری تقاضے تھے اس سے انہوں نے اس مخلوق کی فطرت کا اندازہ لگالیاہو۔ اس لئے وہ جانتے تھے یا کم ازکم انہیں یہ توقع تھی کہ آنے والی یہ نئی مخلوق زمین میں فساد برپاکرے گی اور یہاں خونریزیاں ہوں گی ۔ انہوں نے یہ سوال اس لئے بھی اٹھایا کہ اپنی پاک فطرت اور معصومیت کی وجہ سے وہ خیر مطلق اور ہمہ جہت امن وامان کا ہی تصور کرسکتے تھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کائنات کا مقصد وجود اور سبب تخلیق صرف یہ ہے کہ اللہ کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تقدیس کی جائے اور یہ بات ان کی موجودگی سے پوری طرح سرانجام دی جارہی تھی ۔ کیونکہ یہ فرشتے ہر وقت اللہ کی حمد وثناکے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی اس کی بندگی اور اطاعت سے منہ نہ موڑتے تھے ۔

لیکن اس زمین کی ساخت وپرداخت اور اس کی اندر زندگی کی بوقلمونیوں کے بروئے کار لانے میں جو گہری اور دوررس مصلحت کارفرماتھی وہ ان کی نظر سے اوجھل تھی ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ اللہ کا یہ خلیفہ جو اگرچہ کبھی کبھار فساد پھیلائے گا ، خونزریزیاں بھی کرے گا ، اس زمین کو مسخر کرے ، اسے ترقی دے ، اس کی ساخت کو بدلے تاکہ اللہ کا منشاپورا ہو اور اس معمولی اور جزوی شر و فساد کے ہوئے وہ عظیم بھلائیاں پروان چڑھیں جو عمومی اور سب کائنات کو شامل ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس وسیع کائنات میں دائمی نشوونما ، مسلسل تہذیب کی ترقی ، تخریب وتعمیر کا دائمی عمل ، پیہم جدوجہد ، نہ رکنے والی جستجو ، مسلسل تغیر وتبدیلی کے ذریعہ یہ عظیم تربھلائی اور بہبود بروئے کارلائی جائے ۔

چناچہ ان کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عالم الغیب اور علیم وخبیر ہے یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ ” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ “