یٰۤاَیُّهَا
النَّاسُ
اعْبُدُوْا
رَبَّكُمُ
الَّذِیْ
خَلَقَكُمْ
وَالَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَ
۟ۙ
3

سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔ لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں : آیت 21 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ”اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے“۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں : فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ”پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو“۔ سورة نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ”کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو !“پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ الذّٰریٰت ”اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں“۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ”عبادتِ ربّ“ ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ”یٰقَوْمِ“ ہے۔ یعنی ”اے میری قوم کے لوگو !“ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ”یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ“ یعنی ”اے بنی نوع انسان !“ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تمام رسول علیہ السلام صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔ عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ”تاکہ تم بچ سکو“۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔