You are reading a tafsir for the group of verses 2:17 to 2:20
مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ
الَّذِی
اسْتَوْقَدَ
نَارًا ۚ
فَلَمَّاۤ
اَضَآءَتْ
مَا
حَوْلَهٗ
ذَهَبَ
اللّٰهُ
بِنُوْرِهِمْ
وَتَرَكَهُمْ
فِیْ
ظُلُمٰتٍ
لَّا
یُبْصِرُوْنَ
۟
صُمٌّۢ
بُكْمٌ
عُمْیٌ
فَهُمْ
لَا
یَرْجِعُوْنَ
۟ۙ
اَوْ
كَصَیِّبٍ
مِّنَ
السَّمَآءِ
فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ
وَّرَعْدٌ
وَّبَرْقٌ ۚ
یَجْعَلُوْنَ
اَصَابِعَهُمْ
فِیْۤ
اٰذَانِهِمْ
مِّنَ
الصَّوَاعِقِ
حَذَرَ
الْمَوْتِ ؕ
وَاللّٰهُ
مُحِیْطٌ
بِالْكٰفِرِیْنَ
۟
یَكَادُ
الْبَرْقُ
یَخْطَفُ
اَبْصَارَهُمْ ؕ
كُلَّمَاۤ
اَضَآءَ
لَهُمْ
مَّشَوْا
فِیْهِ ۙۗ
وَاِذَاۤ
اَظْلَمَ
عَلَیْهِمْ
قَامُوْا ؕ
وَلَوْ
شَآءَ
اللّٰهُ
لَذَهَبَ
بِسَمْعِهِمْ
وَاَبْصَارِهِمْ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
عَلٰی
كُلِّ
شَیْءٍ
قَدِیْرٌ
۟۠
3

کسی کمرے میں کالی اور سفید چیزیں ہوں تو جب تک اندھیرا ہے وہ اندھیرے میں گم رہیں گی۔ مگر روشنی جلاتے ہی کالی چیز کالی اور سفید چیز سفید دکھائی دینے لگے گی۔ یہی حال اللہ کی طرف سے اٹھنے والی دعوتِ نبوت کا ہے۔ یہ خدائی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو اس کے اجالے میں ہدایت اور ضلالت صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نیک عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، برا عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، سب کھل کر ٹھیک ٹھیک سامنے آجاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے آپ کو حق کے تابع کرنے کے بجائے حق کو اپنا تابع بنائے ہوئے تھے، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ ان کا چھپا ہوا حسد اور گھمنڈ زندہ ہوکر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خدائی آئینہ میںاپنا چہرہ دیکھتے ہی ان کی منفی نفسیات ابھر آتی ہیں۔ ان کے اندرونی تعصبات ان کے حواس پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ آنکھ، کان، زبان رکھتے ہوئے بھی وہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کہ وہ اندھے ہیں، وہ بہرے ہیں، وہ گونگے ہیں۔ اب وہ نہ تو کسی پکارنے والےکی پکار کو سن سکتے ہیں، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کی نشانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح رویہ یہ تھا کہ پکارنے والے کی پکار پر غور کرتے، مگر اس کے بجائے انھوں نے اس سے بچنے کا سادہ سا علاج یہ دریافت کیا ہے کہ اس کی بات کو سرے سے سنا ہی نہ جائے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔

اسی طرح ایک اور نفسیات ہے جو حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ڈر کی نفسیات ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بارش جب آتی ہے تو اپنے ساتھ کڑک اور گرج بھی لے آتی ہے جس سے کمزور لوگ ہیبت کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی طرف سے حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طرف اگر وہ انسانوں کے لیے عظیم کامرانیوں کا امکان کھولتی ہے تو دوسری طرف اس میں کچھ وقتی اندیشے بھی دکھائی دیتے ہیں— اس کو مان لینے کی صورت میں اپنی بڑائی کا خاتمہ، زندگی کے بنے بنائے نقشے کو بدلنے کی ضرورت، رواجی ڈھانچہ سے ٹکراؤ کے مسائل، آخرت کے بارے میں خوش خیالیوں کے بجائے حقائق پر بھروسہ کرنا۔ اس قسم کے اندیشوں کو دیکھ کر وہ کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی تذبذب کے ساتھ چند قدم آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ احتیاطیں ان کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے لیے اپنے کوکھلے دل سے پیش نہ کرکے وہ زیادہ شدید طورپر اپنے کوخدا کی نظر میں قابل سزا بنا رہے ہیں۔