You are reading a tafsir for the group of verses 2:19 to 2:20
اَوْ
كَصَیِّبٍ
مِّنَ
السَّمَآءِ
فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ
وَّرَعْدٌ
وَّبَرْقٌ ۚ
یَجْعَلُوْنَ
اَصَابِعَهُمْ
فِیْۤ
اٰذَانِهِمْ
مِّنَ
الصَّوَاعِقِ
حَذَرَ
الْمَوْتِ ؕ
وَاللّٰهُ
مُحِیْطٌ
بِالْكٰفِرِیْنَ
۟
یَكَادُ
الْبَرْقُ
یَخْطَفُ
اَبْصَارَهُمْ ؕ
كُلَّمَاۤ
اَضَآءَ
لَهُمْ
مَّشَوْا
فِیْهِ ۙۗ
وَاِذَاۤ
اَظْلَمَ
عَلَیْهِمْ
قَامُوْا ؕ
وَلَوْ
شَآءَ
اللّٰهُ
لَذَهَبَ
بِسَمْعِهِمْ
وَاَبْصَارِهِمْ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
عَلٰی
كُلِّ
شَیْءٍ
قَدِیْرٌ
۟۠
3

اب ایک دوسری تمثیل کے ذریعے ان کی نفسیاتی صورتحال کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ جس سے ان کے اندرونی اضطراب ، حیرت اور خوف وبے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔ أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ........ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے ، اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے ۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ چمک سے ان کی حالت یہ ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت لے جائے ۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں ۔ جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “

عجیب منظر ہے یہ بھی ، جس دوڑ بھاگ ، قلق و اضطراب ، گمراہی وضلالت ، خوف ورعب ، جزع وفزع ، حیرانی و پریشانی ، چمک دمک اور چیخ و پکار کی مختلف تصویریں رواں اور دواں نظر آتی ہیں ۔ آسمان سے موسلا دھار بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹائیں اور نیز چمک اور بجلی کے کڑاکے کی سخت آوازیں ہیں ۔ کچھ لوگ ہیں جو اس تیز چمک کی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اچانک اندھیرا ہوجاتا ہے ۔ بےچارے کھڑے ہوجاتے ہیں ، حیران وپریشان ہیں ، نہیں جانتے کہ کدھر جائیں ، مارے خوف کے کانپ رہے ہیں اور بجلی کے کڑاکے سن کر جان نکلی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ۔

پورامنظر اس تگ وتاز سے بھرا ہوا ہے ، موسلا دھار بارش ، تاریکیاں ، کڑک اور چمک ، خوفزدہ اور پریشان مسافر جو ڈرتے ڈرتے کچھ قدم آگے بڑھاتے ہیں اور اندھیرا آتے ہی رک جاتے ہیں ۔ اس پورے منظر سے قرآن کریم یہ مثبت تاثر دینا چاہتا ہے کہ منافقین کسی طرح قلق و اضطراب ، حیرانی و پریشانی ، گمراہی وسرگردانی کا شکار ہیں ۔ ادھر مومنین سے ملتے ہیں ۔ ادھر اپنے شیاطین سے بھی ان کی ملاقات ہے ۔ ادھر اقرار حق ہے تو ایک لحظہ بعد انکار اور سرکشی ہے ۔ وہ نور اور ہدایت کے متلاشی ہیں ۔ لیکن وہ عملاً اندھیروں اور گمراہیوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی محسوس تمثیل اور منظر ہے لیکن منافقین کی خفیہ ترین نفسیاتی صورتحال کو آئینہ دکھارہا ہے۔ شعوری صورتحال کو مجسم شکل میں ظاہر کررہا ہے ۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص اور عجیب اسلوب بیان ہے ۔ قرآن کرین نفسیاتی اور الجھی ہوئیی ذہنی کیفیات کو اس طرح مخصوص انداز میں بیان کرتا ہے کہ وہ مجسم شکل میں آنکھوں کے سامنے کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔