وَاِذَا
قِیْلَ
لَهُمْ
لَا
تُفْسِدُوْا
فِی
الْاَرْضِ ۙ
قَالُوْۤا
اِنَّمَا
نَحْنُ
مُصْلِحُوْنَ
۟
3

گویا یہ لوگ جھوٹ اور فریب پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ مومنین کو بیوقوف سمجھتے ہوئے الٹا یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں وہ اس نصیحت کا کہ ” زمین میں فساد نہ کرو۔ “ یہ سادہ جواب نہیں دیتے کہ ” بھائی ہم کب فساد برپاکر رہے ہیں ؟ بلکہ وہ اکڑ کر یہ ادعا کرتے ہیں کہ ” مصلح تو ہیں ہی ہم۔ “

ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کی یہ قسم دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ عملاً فساد کی بدترین شکلیں برپاکررہی ہوتی ہیں اور اس کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم تو بس اصلاح معاشرہ چاہتے ہیں جب معاشرہ میں بلند اقدار تباہ ہوتی ہیں تو ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ اخلاص اور پاکیزگی نفس سے محروم ہوتے ہیں اور جب اخلاص جاتا رہے اور نفس انسانی میں فساد پیدا ہوجائے تو تمام اعلیٰ قدریں اور حسن وقبح کے پیمانے از خود ختم ہوجاتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں خلوص اور ایمان نہ رہے ۔ وہ کبھی بھی فساد فکر وعمل کا شعور نہیں پاسکتے اور ان کے دل و دماغ میں خیر وشر اور اصلاح و فساد کا جو پیمانہ ہوتا ہے ، وہ ان کی خواہشات نفسانی کی طرف ، جھکتا رہتا ہے اور ربانی نظام حیات کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔ اسی لئے ان کے اس دعوے کا یہ سخت لیکن حقیقت پسندانہ جواب دیا جاتا ہے۔