You are reading a tafsir for the group of verses 2:97 to 2:101
قُلْ
مَنْ
كَانَ
عَدُوًّا
لِّجِبْرِیْلَ
فَاِنَّهٗ
نَزَّلَهٗ
عَلٰی
قَلْبِكَ
بِاِذْنِ
اللّٰهِ
مُصَدِّقًا
لِّمَا
بَیْنَ
یَدَیْهِ
وَهُدًی
وَّبُشْرٰی
لِلْمُؤْمِنِیْنَ
۟
مَنْ
كَانَ
عَدُوًّا
لِّلّٰهِ
وَمَلٰٓىِٕكَتِهٖ
وَرُسُلِهٖ
وَجِبْرِیْلَ
وَمِیْكٰىلَ
فَاِنَّ
اللّٰهَ
عَدُوٌّ
لِّلْكٰفِرِیْنَ
۟
وَلَقَدْ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ
اٰیٰتٍۭ
بَیِّنٰتٍ ۚ
وَمَا
یَكْفُرُ
بِهَاۤ
اِلَّا
الْفٰسِقُوْنَ
۟
اَوَكُلَّمَا
عٰهَدُوْا
عَهْدًا
نَّبَذَهٗ
فَرِیْقٌ
مِّنْهُمْ ؕ
بَلْ
اَكْثَرُهُمْ
لَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
وَلَمَّا
جَآءَهُمْ
رَسُوْلٌ
مِّنْ
عِنْدِ
اللّٰهِ
مُصَدِّقٌ
لِّمَا
مَعَهُمْ
نَبَذَ
فَرِیْقٌ
مِّنَ
الَّذِیْنَ
اُوْتُوا
الْكِتٰبَ ۙۗ
كِتٰبَ
اللّٰهِ
وَرَآءَ
ظُهُوْرِهِمْ
كَاَنَّهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟ؗ
3

قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔

اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔