أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يُؤْمِنُونَ ” کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرورہی بالائے طاق رکھ دیا بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے ۔ “
انہوں نے کوہ طور کے نیچے اللہ کے ساتھ پختہ پیمان باندھا اور بعد میں اس کی خلاف ورزی کی ۔ نبی ﷺ سے قبل آنے والے پیغمبروں کے ساتھ انہوں نے جو عہد کئے ان کی خلاف ورزی کی اور نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد یہودیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسے بھی انہوں نے پس پشت ڈال دیاحالان کہ اس معاہدے میں ان کے ساتھ شرائط طے کی گئی تھیں اور انہوں نے پہل کرکے حضور ﷺ کے دشمنوں سے معاونت کی ، نبی ﷺ کے پیش کردہ نظام زندگی پر تنقید شروع کردی اور مسلمانوں کے اندرانتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ حالانکہ یہ سب باتیں میثاق مدینہ کے خلاف تھیں۔
یہ تھی بنی اسرائیل کی مذموم عادت جب کہ مسلمانوں کا رویہ اس سے بالکل مختلف تھا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں ” مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہیں اور وہ سب دوسروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ان میں ادنیٰ ترین آدمی بھی سب کی طرف سے امان دے سکتا ہے ۔ “ اور جب وہ کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں تو ان میں سے کسی کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ وہ اسے توڑے یا اس کی خلاف ورزی کرے۔
حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں ان کمانڈر انچیف حضرت ابوعبیدہ ؓ نے لکھا کہ عراق کے ایک گاؤں والوں کو ہمارے ایک غلام نے امان دے دی ہے ۔ اب ہم ان کے ساتھ کیا معاملہ کریں ؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے معاہدے کی پابندی کرنے کو ایک عظیم فریضہ قرار دیا ہے ۔ اور جب تک آپ لوگ اپنے اس عہد کو پورانہ کریں گے اس وقت تک آپ کو وفادار نہیں کہا جاسکتا۔ چناچہ انہوں نے اس عہد پر عمل کرتے ہوئے اس شہر کے باشندوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔