You are reading a tafsir for the group of verses 29:8 to 29:9
وَوَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ
بِوَالِدَیْهِ
حُسْنًا ؕ
وَاِنْ
جَاهَدٰكَ
لِتُشْرِكَ
بِیْ
مَا
لَیْسَ
لَكَ
بِهٖ
عِلْمٌ
فَلَا
تُطِعْهُمَا ؕ
اِلَیَّ
مَرْجِعُكُمْ
فَاُنَبِّئُكُمْ
بِمَا
كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ
۟
وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
لَنُدْخِلَنَّهُمْ
فِی
الصّٰلِحِیْنَ
۟
3

انسان پر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ جس کا حق ہے وہ اس کے ماں باپ ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کے حقوق کی بھی ایک حد ہے۔ اور حدیث کے الفاظ میں وہ حد یہ ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں (لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 381 ۔

ماں باپ کے حقوق اسی وقت تک قابل لحاظ ہیں جب تک وہ خدا کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ ماں باپ کا حکم جب خدا کے حکم سے ٹکرانے لگے تو اس وقت ماں باپ کا حکم نہ ماننا اتنا ہی ضروری ہوجائے گا جتنا عام حالات میں ماں باپ کا حکم ماننا ضروری ہوتاہے۔ اسلام میں ماں باپ کے حقوق سے مراد ماں باپ کی خدمت ہے، نہ کہ ماں باپ کی عبادت۔