آیت 8 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط ”مکہ کے مذکورہ حالات میں اسلام قبول کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ایک بہت سنجیدہ مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت تھی کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے۔ دوسری طرف ایمان لانے والے بہت سے نوجوان عملی طور پر اپنے والدین سے بغاوت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ چناچہ ایسے تمام نوجوان اخلاقی اور جذباتی طور پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔ مشرک والدین کا ان سے تقاضا تھا کہ تم ہماری اولاد ہو ‘ ہم نے پال پوس کر تمہیں بڑا کیا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ہمارا حکم مانو اور محمد ﷺ سے تعلق توڑ کر اپنے مذہب پر واپس آجاؤ۔ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص رض کا معاملہ تھا۔ آپ رض کے والد فوت ہوچکے تھے۔ والدہ نے انہیں بہت ناز ونعم سے پالا تھا۔ آپ رض بہت سلیم الفطرت اور شریف النفس نوجوان تھے اور اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ رض کے ایمان لانے پر آپ رض کی والدہ نے ”مرن برت“ رکھ لیا اور قسم کھالی کہ اگر اس کا بیٹا اپنے والد کے دین پر واپس نہ آیاتو وہ بھوکی پیاسی رہ کر خود کو ہلاک کرلے گی۔ تصور کریں کہ ماں بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے اور بیٹا اس کی اس حالت کو بےچارگی سے دیکھ رہا ہے۔ ایک فرمانبردار بیٹے کے لیے یہ کس قدر سخت امتحان تھا ! چناچہ یہ سوال بہت اہم تھا کہ ایسے نوجوان ان حالات میں کیا کریں ؟ ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن میں متعدد مقامات پر البقرۃ : 83 ‘ النساء : 36 ‘ الانعام : 151 ‘ بنی اسرائیل : 23 ‘ لقمان : 14 اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کا ذکر کرنے کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ دوسری طرف مشرک والدین کا یہ اصرار کہ ان کی اولاد ان کی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر واپس ان کے دین پر آجائے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس نازک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائی گئی ہے : وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ط ”نوٹ کیجیے یہاں ”جہاد“ کا لفظ مشرک والدین کی اس ”کوشش“ کے لیے استعمال ہوا ہے جو وہ اپنی اولاد کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ گویا یہاں یہ لفظ اپنے خالص لغوی معنی جدوجہد کرنا ‘ کوشش کرنا میں آیا ہے۔ اس آیت میں بہت واضح انداز میں اولاد کے لیے والدین کی فرمانبرداری کی ”حد“ limit بتادی گئی کہ والدین کے حقوق بہر حال اللہ کے حقوق کے بعد ہیں۔ یعنی اللہ کا حق ‘ اس کا حکم اور اس کے دین کا تقاضا ہر صورت میں والدین کے حقوق اور ان کی مرضی پر فائق رہے گا۔ لہٰذا کسی نوجوان کے والدین اگر اسے کفر و شرک پر مجبور کر رہے ہوں تو وہ ان کا یہ مطالبہ مت مانے۔ البتہ اس صورت میں بھی نہ تو وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور نہ ہی سینہ تان کر جواب دے ‘ بلکہ ادب سے انہیں سمجھائے کہ ان کا یہ حکم ماننا اس کے لیے ممکن نہیں ‘ اس لیے اس کی درخواست ہے کہ وہ اس کے لیے اس پر دباؤ نہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ سورۂ مریم ‘ آیات 42 تا 45 اس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ اس مکالمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے والد کو بار بار یٰاَبَتِ ‘ یٰاَبَتِ ابا جان ! ابا جان ! کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے یہ مضمون سورة لقمان میں زیادہ وضاحت سے بیان ہوا ہے۔