فَاِذَا
رَكِبُوْا
فِی
الْفُلْكِ
دَعَوُا
اللّٰهَ
مُخْلِصِیْنَ
لَهُ
الدِّیْنَ ۚ۬
فَلَمَّا
نَجّٰىهُمْ
اِلَی
الْبَرِّ
اِذَا
هُمْ
یُشْرِكُوْنَ
۟ۙ
3

فاذا رکبوا فی ۔۔۔۔ اذاھم یشرکون (29: 66) . یہ بھی ان کے عقائد کا بہت بڑا تضاد ہے۔ ان کے عقائد اس قدر ڈانواں ڈول ہوتے ہیں کہ جب کشتی پر وہ گہرے سمندر میں ہوتے ہیں اور یہ جہاز بحری امواج کے تلاطم میں ایک کھلونا بن جاتا ہے اور ان پر خوف طاری ہوتا ہے تو وہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارتے۔ اس وقت ان کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ اصل قوت تو صرف اللہ ہی کی قوت ہے۔ پھر ان کی سوچ میں بھی اللہ وحدہ ہوتا ہے اور اس کی زبان پر بھی اللہ وحدہ کا نام ہوتا ہے۔ اب وہ اپنی اس فطرت کے تابع ہوتے ہیں جو وحدانیت کا شعور رکھتی ہے ۔ لیکن جب اللہ ان کو بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو یہ لوگ اچانک پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور وہ فطری شعور پھر دب جاتا ہے۔ اب اچانک وہ اس حالت کو بھول جاتے ہیں جس میں وہ اللہ وحدہ کو پکارتے تھے اور اقرار اور تسلیم کے بعد دوبارہ یہ لوگ شرک کی راہ پر پڑجاتے ہیں۔

اس بےراہ روی اور گمراہی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ یہ لوگ ان انعامات کی ناشکری اور کفر کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو دئیے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس فطری راہ سے منحرف ہوجاتے ہیں جو اللہ نے ان کی شخصیت کے اندر ودیعت کردی ہوئی ہے۔ ان فطری براہین کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کو وہ مھسوس کرتے ہیں اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حیات دنیا تو ایک محدود وقت تک کے لیے ایک سازو سامان ہے لیکن ان کو بہت جلد اپنے حقیقی انجام کا پتہ چل جائے گا۔ وہ بہت ہی برا انجام ہوگا۔