ولئن سالتھم من خلق السموت والارض ۔۔۔۔۔۔۔۔ جھنم مثوی للکفرین (61 – 67)
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے ، کاش یہ لوگ جانتے۔ جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر ان کا کفران نعمت کریں۔ اور (حیات دنیا کے) مزے لوٹیں ۔ اچھا ، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گردو پیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں ؟ کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں ؟ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آچکا ہو ؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم ہی نہیں ہے ؟ “
ان آیات میں نزول اسلام سے قبل عرب عقائد کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے اصل عقائد توحید پر مبنی تھے۔ بعد کے ادوار میں ان کے عقائد اور نظریات کے اندر انحراف پیدا ہوگیا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ یہ اولاد اسماعیل تھے۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں اس لیے وہ پنے عقائد کو حضرت اسماعیل و ابراہیم (علیہم السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کے دین کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ یہ دین جزیرۃ العرب کے آس پاس موجود تھے کیونکہ یہ لوگ دین ابراہیم کو برتر سمجھتے ہوئے ، اس پر فخر کرتے تھے۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہ سکتے تھے کہ ان کے عقائد کے اندر اصل دین کے مقابلے میں کس قدر انحراف آگیا ہے اور عملاً وہ مشرک ہوگئے ہیں
جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کا خالق کون ہے ؟ اور شمس و قمر کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ آسمانوں سے پانی کون برساتا ہے ؟ مرونی کے بعد زمین میں روئیدگی کون لاتا ہے ؟ تو یہ لوگ صاف صاف اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب کام اللہ ہی کرنے والا ہے۔ لیکن ان کے باوجود وہ اپنے بتوں کو بھی پوجتے ہیں۔ جنوں کی عبادت بھی کرتے ہیں ، ملائکہ کی پرستش بھی کرتے ہیں ، اور ان سب کو عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ جبکہ تخلیق میں ان کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ یہ عجیب تناقص تھا۔ اس تضاد کی وجہ سے ان آیات میں اللہ ان کے اس طرز فکر پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں :
فانی یوفکون (29: 61) ” پھر یہ کدھر سے دھوکہ کھا رہے ہو “۔ یعنی کس طرح تم حق سے پھر کر ان مغلوبہ عقائد میں پھنس گئے ہو۔
بل اکثرھم لا یعقلون (29: 63) ” ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں “۔ کیونکہ جس کی عقل سلیم ہو وہ ایسے عقائد اختیار نہیں کرتا۔
خالق سماوات وارض کے بارے میں سوال ، شمس و قمر کے مسخر کرنے والے کے بارے میں دریافت اور آسمانوں سے پانی نازل کرنے والے کے بارے میں سوال اور مدہ زمین کو سرسبز کرنے والے کے بارے میں سوال کے درمیان یہ بھی قرار دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کا رزق تنگ کردیتا ہے اور کسی کا کشادہ کردیتا ہے۔ یوں تمام آثار قدرت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ رازق بھی وہی ہے اور اللہ تمام مخلوقات کو جانتا ہے۔ اور سب کو رزق پہنچاتا ہے۔
ان اللہ بکل شیئ علیم (29: 62) ” یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے “۔
آسمانوں کی گردش کے ساتھ رزق واضح طور پر مربوط ہے۔ پانی ، زندگی اور روئیدگی بھی گردش افلاک سے مربوط ہے۔ اسی طرح رزق کی کشادگی اور تنگی بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تمام مظاہر ان آیات میں واضح طور پر دکھائے گئے ہیں۔ رزق پانی سے وجود میں آتا ہے۔ نہریں اور دریا بارش سے بہتے ہیں اور ان کی وجہ سے حیات و نبات قائم ہیں۔ یہ پانی زمین کے اندر بھی ذخیرہ ہوتا ہے اور اوپر بھی بہتا ہے اور اس کی وجہ سے بحروبر کا شکار پیدا ہوتا ہے۔ غرض تمام ارزاق پانیوں سے وابستہ ہیں۔ اس کائنات کے نوامیس فطرت کے مطابق پانی پیدا ہوتے ہیں اور شمس و قمر کے سب مظاہر شمس و قمر کی تسخیر کے نتیجے میں ، اور اگر یہ نوامیس فطرت ذدہ بھر بدل جائیں تو سطح زمین کا یہ منظر ہی یکلخت بدل جائے۔ پھر زمین کے اندر کے تمام ذخائر اور قدرت وسائل بھی اللہ کے جاری کردہ نوامیس زمان و مکان کے مطابق ہیں۔ زمین کی یہ تمام بوقلمونیاں شمس و قمر کی گردش کے نتیجے میں ہیں (فی ظلال پارہ 19 میں ہم نے تفصیلات دی ہیں) ۔
قرآن کریم اس عظیم کائنات اور اس کے مشاہدہ مناظر کو بطور حجت اور برہان پیش کرتا ہے۔ جو سچائی قرآن لے کر آیا ہے اس کا نکتہ تدبر یہ عظیم کائنات ہے۔ ایک متفکر اور سوچ رکھنے والا دل اس عظیم کائنات پر ضرور غور کرتا ہے۔ وہ اس کائنات کے عجائبات کو دیکھ کر زندہ و بیدار رہتا ہے ، دست قدرت کی صنعت کاریوں کو سمجھتا ہے۔ اس وسیع کائنات کے لیے جو نہایت ہی اٹل ناموس قدرت وضع کیا گیا ہے وہ اس کا شعور رکھتا ہے۔ وہ نہایت ہی ٹھنڈے دل اور نہایت ہی سنجیدگی سے اور نہایت ہی سہولت سے اس شعور کو پالیتا ہے۔ اسے بہت گہرے غور و فکر کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور جب بھی یہ زندہ اور بیدار دل اس کائنات کی عظیم آیات میں سے کوئی نشانی پالیتا ہے تو وہ اللہ کی حمدوثنا میں رطب اللسان ہوجاتا ہے۔
قل الحمدللہ ۔۔۔۔۔ لایعقلون (29: 63) ” کہو الحمدللہ ، مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں “۔ زمین کے اوپر آثار حیات اور رزق کی تنگی اور کشادگی کے حوالے سے انسانوں کے سامنے اقدار حیات کا حساس ترازو رکھ دیا جاتا ہے کہ دیکھو دنیا کی یہ زندگی اپنی تمام بوقلمونیوں اور لہو ولعب کے باوجود ایک تحصیل تماشا ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔