وَمَنْ
جَاهَدَ
فَاِنَّمَا
یُجَاهِدُ
لِنَفْسِهٖ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
لَغَنِیٌّ
عَنِ
الْعٰلَمِیْنَ
۟
3

آیت 6 وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ”دیکھو ! تم میں سے جو کوئی اللہ کی راہ میں جدوجہد کر رہا ہے ‘ اس کے لیے تکلیفیں اٹھا رہا ہے اور ایثار کر رہا ہے تو یہ سب کچھ وہ اپنے لیے کر رہا ہے ‘ اس کا فائدہ بھی اسی کو ملنے والا ہے۔ وہ اپنے ان اعمال کا اللہ پر احسان نہ دھرے۔ اللہ کو ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ ان چیزوں سے بہت بلند اور بےنیاز ہے۔ سورة الحجرات میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْاط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْج بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰٹکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ”اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ اپنے اسلام کا مجھ پر احسان مت دھرو ‘ بلکہ یہ تو تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ‘ اگر تم اپنے ایمان کے دعوے میں سچے ہو۔“r؂ منتّ منہَ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی منتّ شناس ازو کہ بخدمت بدا شتت !یعنی تم بادشاہ پر احسان مت دھرو کہ تم اس کی خدمت کر رہے ہو ‘ بلکہ تم اس سلسلے میں بادشاہ کا احسان پہچانو کہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے۔نوٹ کیجیے ان آیات کے مندرجات انسانی دل و دماغ کے احساسات و خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں۔۔ اب اگلی آیت میں پھر دلجوئی کا انداز ہے۔ گویا پہلے رکوع میں ترہیب کا رنگ بھی ہے اور ترغیب کا انداز بھی اور یہ دونوں مضامین پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔ آغاز سرزنش سے ہوا تھا ‘ پھر دلجوئی فرمائی گئی ‘ اس کے بعد پھر سرزنش اور اب پھر دلجوئی :