ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔