اولم یکفھم ۔۔۔۔۔ لقوم یؤمنون (51)
یہ ان کی جانب سے اللہ کی نعمتوں اور مہربانیوں کی ناشکری ہے ، حالانکہ اللہ کے انعامات شکر اور قدردانی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ یہ لوگ اس قرآن کے ساتھ آسمانوں میں پہنچ جائیں اور دیکھیں کہ یہ آسمانوں سے نازل ہو رہا ہے اور آسمانوں سے آکر وہ ان کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے۔ ان کے دلوں کی بات کرتا ہے۔ ان کے ماحول کی باتیں کرتا ہے۔ ان کو یہ شعور دلاتا ہے کہ اللہ کی ان پر ہر وقت نظر ہے۔ اللہ کے ہاں تمہاری بہت اہمیت ہے کہ وہ تمہارے امور سے بحث کرتا ہے۔ تمہیں قصص سناتا ہے جبکہ اے انسان تو تو اللہ کی اس وسیع کائنات میں ایک مچھر سے بھی زیادہ کمزور اور چھوٹا ہے۔ بلکہ اے انسان تو ، تمہاری یہ زمین اور تمہارا یہ شمس و قمر تو اللہ کی اس کائنات میں اس طرح ہیں جس طرح پرکاہ اس زمین کے مقابلے میں اور یہ پرکاہ بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ، لیکن اس کے باوجود اللہ نے تمہیں مکرم بنایا ہے اور وہ رم پر بلندیوں سے یہ قرآن نازل کرتا ہے لیکن تم پھر بھی اس کی قدر نہیں کرتے ہو ؟
ان فی ذلک ۔۔۔۔۔ یومنون (29: 51) ” بیشک اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں “۔ اس لیے کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی لوگ اس رحمت و شفقت کا احساس کرسکتے ہیں۔ اور وہی لوگ اس بات کا شعور حاصل کرسکتے ہیں کہ قرآن کو نازل کرکے اللہ نے اپنے بندوں پر کس قدر رحمت و شفقت فرمائی۔ یہی لوگ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ جو بہت ہی بلند مرتبہ ہے ، جو بہت ہی عظمتوں والا ہے وہ اس ناچیز انسان کو اپنے اس دستر خوان پر بلاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ اس قرآن سے نفع حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ تو مطالعہ کرنے والے کے لیے آب حیات ہے اور اس کے ذریعہ مومن اور متدبر پر بےپناہ خزانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، اور ان کی روحوں کے اندر یہ قرآن ایک روشنی اور اشتراق پیدا کردیتا ہے۔
جن لوگوں کو ان امور کا شعور نہیں دیا گیا ، وہ حقیر مادی معجزات طلب کرتے ہیں اور حقیر معجزات کے ذریعے وہ اس عظیم اور ابدی معجزے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کی شخصیت مسخ ہوچکی ہے اس لیے ان کے دل اس نور کے لئے نہیں کھلتے لہٰذا ایسے لوگوں پر اپنا وقت نہ ضائع کرو۔ ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ ان کا فیصلہ وہی کرے گا۔