وقالوا لو لا ۔۔۔۔۔ انا نذیر مبین (50)
” یہ لوگ کہتے ہیں کہ ” کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے ؟ “ کہو ” نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر “۔
ان معجزات اور نشانیوں سے ان کو مراد وہ معجزات اور نشانیاں ہیں جو آغاز انسانیت بھی انسانیت کے دور طفولیت میں ان کے سامنے پیغمبروں نے پیش کیں ، یعنی مادی معجزات۔ اور یہ معجزات صرف ان لوگوں کے لیے حجت ہوتے تھے جو ان کو دیکھتے تھے۔ جبکہ نبی ﷺ کی رسالت وہ آخری اور دائمی رسالت ہے جو ان تمام لوگوں کے لیے حجت ہے جن تک اس کی دعوت پہنچ جائے اور یہ رسالت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسانیت موجود ہے اور یہ دنیا قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس رسالت کو ایک ایسی معجز کتاب دی ہے جو ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اور جس کا اعجاز ختم نہیں ہوتا۔ اور جس کے کمالات و عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ اللہ کے لیے قرآن کے خزانوں کا علیحدہ ذخیرہ ظاہر ہوتا رہتا ہے اور اس کے یہ معجزات اور دلائل ہر دور کے اہل علم کے سینوں میں موجود رہتے ہیں۔ جب بھی اہل علم اس پر غور کرتے ہیں وہ اس کتاب کے اعجاز اور معجزات کو پاتے ہیں اور وہ اچھی طرح محسوس کرلیتے ہیں کہ قرآن کریم کو یہ عظمت اور شوکت کس سرچشمے سے ملی ہے۔
قل انما الایت عنداللہ (29: 50) ” کہو ، نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں “۔ اور اللہ اپنی نشانیاں اس وقت ظاہر کرتا ہے جب ان کی حاجت اور ضرورت ہو۔ اور یہ سب کام ، اللہ کے نظام تدبیر اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے اس لیے میں اس سلسلے میں نہ کوئی تجویز دے سکتا ہوں اور نہ مطالبہ کرسکتا ہوں ۔ یہ میرے لائق نہیں ہے اور نہ ہی یہ میری عادت ہے۔
وانما انا نذیر مبین (29: 50) ” میں صرف خبردار کرنے والا ہوں ، کھول کھول کر “۔ میں ڈراتا ہوں اور خبردار کرتا ہوں اور لوگوں کے سامنے حقائق کھول کھول کر بیان کرتا ہوں اور یہی میرا فریضہ ہے جس میں ادا کرتا ہوں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا وہ اللہ کی تقدیر و تدبیر کے مطابق ہوگا۔
اس طرح اللہ اسلامی نظریہ حیات کو ہر شک اور شبہ سے پاک کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے منصب اور مقام کی حدود کا تعین کردیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی صفات اور الٰہ واحد وقہار کی صفات کے درمیان امتیاز کردیا جاتا ہے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کے ارد گرد سے شبہات کے وہ بادل چھٹ جاتے ہیں جو ان رسولوں کی شخصیات کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے جن کو مادی معجزات دئیے گئے کیونکہ سابقہ رسولوں کی صفات کو خدائی صفات کے ساتھ ملا دیا گیا تھا اور لوگوں نے ان رسولوں کی شخصیات کو اوہام و خرافات سے گھیر لیا تھا جس کی وجہ سے ان کے عقائد کے اندر بہت بڑا انحراف واقعہ ہوگیا۔
یہ لوگ جو مادی معجزات طلب کر رہے ہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکے ہیں کہ اللہ نے تو قرآن نازل کرکے ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔