مَنْ
كَانَ
یَرْجُوْا
لِقَآءَ
اللّٰهِ
فَاِنَّ
اَجَلَ
اللّٰهِ
لَاٰتٍ ؕ
وَهُوَ
السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ
۟
3

آیت 5 مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآء اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ط ”یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک بندۂ مؤمن دنیا میں اپنا تن من دھن اس کی راہ میں کھپا دے گا تو اس کی اس قربانی کا صلہ اسے آخرت کی نعمتوں کی صورت میں دیا جائے گا۔ لیکن اللہ کا یہ وعدہ بہر حال ادھار کا وعدہ ہے۔ دوسری طرف دنیا کے ظاہری معاملات کو دیکھتے ہوئے انسان ”نو نقد نہ تیرہ ادھار“ کے اصول پر زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ انسان کی اسی کمزوری سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈال کر اس کے یقین کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں حضرت بلال ‘ حضرت ابو فکیہہ اور حضرت خباب جیسے صحابہ رض اور ان کی قائم کردہ مثالوں کی قیامت تک کے لیے پیروی کرنے والے جاں نثاروں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اے شمع توحید کے پروانو ! شیطان تمہارے دلوں میں کسی قسم کا وسوسہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے ‘ تم اطمینان رکھو ! تمہارے ساتھ کیے گئے اللہ کے تمام وعدے ضرور پورے ہوں گے اور آخرت کا وہ دن ضرور آکر رہے گا جس دن تمہاری تمام قربانیوں کا بھر پور صلہ تمہیں دیا جائے گا۔وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ تمہارے حالات سے بخوبی آگاہ ہے ‘ تمہاری کوئی تکلیف اور کوئی قربانی اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘۔۔ اب اگلی آیت میں پھر سرزنش کا انداز ہے :