You are reading a tafsir for the group of verses 29:47 to 29:49
وَكَذٰلِكَ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ
الْكِتٰبَ ؕ
فَالَّذِیْنَ
اٰتَیْنٰهُمُ
الْكِتٰبَ
یُؤْمِنُوْنَ
بِهٖ ۚ
وَمِنْ
هٰۤؤُلَآءِ
مَنْ
یُّؤْمِنُ
بِهٖ ؕ
وَمَا
یَجْحَدُ
بِاٰیٰتِنَاۤ
اِلَّا
الْكٰفِرُوْنَ
۟
وَمَا
كُنْتَ
تَتْلُوْا
مِنْ
قَبْلِهٖ
مِنْ
كِتٰبٍ
وَّلَا
تَخُطُّهٗ
بِیَمِیْنِكَ
اِذًا
لَّارْتَابَ
الْمُبْطِلُوْنَ
۟
بَلْ
هُوَ
اٰیٰتٌۢ
بَیِّنٰتٌ
فِیْ
صُدُوْرِ
الَّذِیْنَ
اُوْتُوا
الْعِلْمَ ؕ
وَمَا
یَجْحَدُ
بِاٰیٰتِنَاۤ
اِلَّا
الظّٰلِمُوْنَ
۟
3

لوگوں میں دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو پہلے سے سچائی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جو بظاہر سچائی کا علم نہیں رکھتے۔ تاہم یہ دوسری قسم کے لوگ بھی فطرت کی سطح پر سچائی سے آشنا ہوتے ہیں۔ اول الذکر اگر حامل کتاب ہیں تو ثانی الذکر حامل فطرت۔

اگر لوگ فی الواقع سنجیدہ ہوں تو وہ فوراً حق کو پہچان لیں گے۔ ایک گروہ اگر اس کو کتابِ آسمانی کی سطح پر پہچان لے گا تو دوسرا گروہ کتابِ فطرت کی سطح پر۔ ہر ایک کو سچائی کی بات اپنے دل کی بات نظر آئے گی۔ مگر اکثر حالات میں لوگ طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر انکار کا مزاج آجاتاہے۔ وہ سچائی کا انکار ہی کرتے رہتے ہیں، خواہ اس کی پشت پر کتنے ہی قرائن جمع ہوں اور اس کے حق میں کتنے ہی زیادہ دلائل دے دئے جائیں۔