وَكَذٰلِكَ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ
الْكِتٰبَ ؕ
فَالَّذِیْنَ
اٰتَیْنٰهُمُ
الْكِتٰبَ
یُؤْمِنُوْنَ
بِهٖ ۚ
وَمِنْ
هٰۤؤُلَآءِ
مَنْ
یُّؤْمِنُ
بِهٖ ؕ
وَمَا
یَجْحَدُ
بِاٰیٰتِنَاۤ
اِلَّا
الْكٰفِرُوْنَ
۟
3

وکذلک انزلنا الیک ۔۔۔۔۔۔ بایتنا الا الکفرون (47)

” اسی طرح “ یعنی ایک ہی مسلسل اور تاریخی منہاج کے مطابق ، ایک ہی سنت الہیہ کے مطابق جو اٹل ہے اور اسی طریقے کے مطابق جس کے ذریعے اللہ ہمیشہ رسولوں کو ہدایت دیتا رہا ہے۔

وکذلک انزلنا الیک الکتب (29: 47) ” اے نبی ﷺ ، ہم نے اسی طرح تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے “۔ اور جب کتاب نازل کی تو لوگ اس کے مقابلے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک تو وہ لوگ تھے جو اہل کتاب میں سے بھی تھے اور قریش میں سے بھی تھے وہ تو ایمان لے آئے اور دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب کے ایمان اور شہادت کے بعد بھی اس کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ وہ اس کی سچائی کی تصدیق کرچکے ہیں۔

وما یجحد بایتنا الا الکفرون (29: 47) ” اور ہماری آیات کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں “۔ یعنی یہ آیات اس قدر واضح ہیں ، اس قدر سیدھی ہیں کہ ان کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جس کی عقل پر پردے پڑگئے ہوں ، جس کی روح مستور ہو ، اور وہ اس قابل ہی نہ رہی ہو کہ سچائی کو دیکھ سکے۔ کفر کے حقیقی معنی ہی چھپانے اور پردوں میں ڈالنے کے ہیں۔ یہاں قرآن نے جو انداز بیان اختیار کیا ہے اس میں کفر کے اصطلاحی معنوں کے ساتھ لغوی معنی بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔