وَكَذٰلِكَ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ
الْكِتٰبَ ؕ
فَالَّذِیْنَ
اٰتَیْنٰهُمُ
الْكِتٰبَ
یُؤْمِنُوْنَ
بِهٖ ۚ
وَمِنْ
هٰۤؤُلَآءِ
مَنْ
یُّؤْمِنُ
بِهٖ ؕ
وَمَا
یَجْحَدُ
بِاٰیٰتِنَاۤ
اِلَّا
الْكٰفِرُوْنَ
۟
3

فَالَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ج ”یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہوئے اس پر ایمان لائیں گے۔ جیسا کہ قبل ازیں ہم سورة القصص کے چھٹے رکوع میں حبشہ سے مکہ آنے والے ان مسلمانوں کا ذکر پڑھ چکے ہیں جو پہلے عیسائی تھے ‘ پھر صحابہ کرام رض کی تبلیغ سے حضور ﷺ پر ایمان لے آئے اور یوں اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرے اجر کے مستحق ٹھہرے۔وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الْکٰفِرُوْنَ ”یہاں سے آگے اب دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف ہے۔ ان لوگوں کے لیے یہاں نبی آخر الزماں ﷺ کی نبوت کی ایک اور دلیل بیان کی جا رہی ہے۔ سورت کے اس حصے میں ساتھ ساتھ چلنے والے دو موضوعات کو قبل ازیں رسی کی دو ڈوریوں سے تشبیہہ دی گئی تھی۔ اس ضمن میں یوں سمجھیں کہ اب کچھ دیر کے لیے دوسری ڈوری نمایاں ہورہی ہے۔