آیت 46 وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُز ”ان کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے ان سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو ان کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی ان کی عصبیت جاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔ بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے ان تک پہنچا دو۔ اس کے بعد وہ اپنے نظریے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ”اس استثناء کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں غیر منصفانہ طرز عمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ‘ اور دوسرے یہ کہ دوران گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ان کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں۔ یعنی اس کا غیر منصفانہ رویہ دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ سخت جملوں کے تبادلے کی نوبت بھی آسکتی ہے اور اس کے بعد مزید گفتگو کرنے سے اعراض بھی برتا جاسکتا ہے۔