’’نماز برائی سے روکتی ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کیفیت نماز برائی سے روکتی ہے۔اگر آدمی واقعۃً خدا کے آگے رکوع اور سجدہ کرنے والا ہو تو اس کے اندر ذمہ داری اور تواضع کااحساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اور ذمہ داری اور تواضع کے احساس سے جو کردار ابھرتاہے وہ یہی ہوتا ہے کہ آدمی وہ کرتاہے جو اسے کرنا چاہيے اور وہ نہیں کرتا جو اسے نہیں کرنا چاہيے۔
ذکر سے مراد خدا کی یاد ہے۔ جب آدمی کو خدا کی کامل معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جب وہ پوری طرح خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اوپر خدا کا تصور چھا جاتا ہے۔ اس کے اندر خدا کی یاد کا چشمہ بہہ پڑتا ہے۔ اس روحانی درجہ کو پہنچ کر آدمی کی زبان سے خدا کےلیے جو اعلیٰ کلمات نکلتے ہیں انھیں کا نام ذکر ہے۔ یہ ذکر بلا شبہ اعلیٰ ترین عبادت ہے۔
تلاوت وحی سے مراد یہاں تبلیغ وحی ہے۔ یعنی لوگوں کو قرآن سنانا اور اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی مرضی سے باخبر کرنا۔ دعوت وتبلیغ کا یہ کام بے حد صبر آزما کام ہے۔ اس میں اپنے مخالفین کا خیر خواہ بننا پڑتا ہے۔ اس میں فریقِ ثانی کی زیادتیوں کو یک طرفہ طورپر نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اپنے مخاطبین کو مدعو کی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے خواہ وہ خود داعی کےلیے رقیب اور حریف بنے ہوئے ہوں۔
نماز جس طرح عام زندگی میں ایک مومن کو برائی سے روکتی ہے، اسی طرح وہ داعی کو غیر داعیانہ روش سے بچاتی ہے۔ خدا کا داعی وہی شخص بن سکتاہے جس کے سینہ میں خدا کی یاد سمائی ہوئی ہو، جو اپنے پورے وجود کے ساتھ خداکے آگے جھکنے والا بن گیا ہو۔