خلق اللہ ۔۔۔۔۔ لایۃ للمؤمنین (44)
” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے ، در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہل ایمان کے لیے “۔
تمام انبیاء کے قصص کے بعد یہ آیت آتی ہے اور اس تمثیل کے بعد آتی ہے جس میں اللہ کی قوت کے مقابلے میں دوسری قوتوں کو تار عنکبوت کی طرف نزار و نحیف بتایا گیا ہے۔ یہ آیت ان سب قصص و تمثیلات کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ ہے۔ اور ان کے درمیان ایک گہرا رابطہ ہے کہ زمین و آسمان میں وہی حقیقت بکھری ہوئی ہے اور ہر سو نظر آتی ہے۔ یہ کائنات جس ٹھوس نظام پر قائم ہے ، اس کے اندر وہی حقیقت ہے وہی قوت ہے جو اس قرآن کے اندر پوشیدہ ہے۔
ان فی ذلک لایۃ للمومنین (29: 44) ” درحقیقت اس میں نشانی ہے اہل ایمان کے لیے “۔ کہ یہ ایک عظیم نظام ہے ، ناپیدا کفار کائنات ہے اور پھر بھی باہم متصادم نہیں ہے۔ اور اہل ایمان ہی ہیں جن کے دل اس کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں ، جن کا نظم و نسق یہ شہادت دیتا ہے ، جس قدر بھی دور تک ہمارا مشاہدہ جائے کہ یہ کائنات ایک عظیم سچائی پر پیدا کی گئی ہے صرف اہل ایمان ہی اس سے حقیقت کو پاسکتے ہیں اس لیے کہ ان کو مومنانہ بصیرت اور بصارت حاصل ہوتی ہے اور ان کا شعور اور قوت مدرکہ تیز ہوتی ہے۔
آخر میں اس کتاب کو جو حضرت محمد ﷺ پر نازل کی گئی ہے ، ذکر و صلوٰۃ سے مربوط کردیا جاتا ہے۔ اور اس حق کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے جو اس پوری کائنات میں پوشیدہ ہے اور اس ذکر و فکر سے مربوط کیا جاتا ہے جو نوح (علیہ السلام) سے ادھر تمام انبیاء کو نکتہ دعوت رہا ہے ۔