فَكُلًّا
اَخَذْنَا
بِذَنْۢبِهٖ ۚ
فَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَرْسَلْنَا
عَلَیْهِ
حَاصِبًا ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَخَذَتْهُ
الصَّیْحَةُ ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
خَسَفْنَا
بِهِ
الْاَرْضَ ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَغْرَقْنَا ۚ
وَمَا
كَانَ
اللّٰهُ
لِیَظْلِمَهُمْ
وَلٰكِنْ
كَانُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ
یَظْلِمُوْنَ
۟
3

فکلا اخذنا بذنبہ ۔۔۔۔۔ انفسہم یظلمون (40)

” آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا۔ پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی ، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا ، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور کسی کو غرق کردیا۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا ، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے “۔ قوم عاد پر اللہ نے ایسی تیز ہوا بھیجی جو پتھر اڑا کر پھینک رہی تھی۔ اسی طرح جو جہاں تھا ، مارا گیا۔ قوم عود پر سخت دھماکہ دار چیخ آئی اور سب ڈھیر ہوگئے۔ اور قارون معہ اپنی دولت اور کوٹھیوں کے زمین میں دھنس گیا۔ اور فرعون اور ہامان بحراحمر میں غرق ہوئے۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے ظلم میں پکڑے گئے۔

وما کان اللہ ۔۔۔۔۔ انفسھم یظلمون (29: 41) ” اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا ، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے “۔ پوری انسانی تاریخ کے باغیوں ، سرکشوں اور ظالموں کی تباہی اور بربادی کا عبرت آموز جائزہ لینے کے بعد اور آغاز سورت میں آزمائش اور گمراہی کے فتنوں کے ذکر کے بعد اب آخر میں ، اسلام اور کفر اور ایمان اور ضلالت کی قوتوں کی کشمکش کو ایک تمثیل سے سمجھایا جاتا ہے کہ حقیقی قوت ایک ہی ہے اور وہ اللہ کی قوت ہے۔ اللہ کے سوا جس قدر قوتیں ہیں وہ نہایت ہی ناتواں اور کجی ہیں۔ ان کی مثال تار عنکبوت کی طرح ہے جو شخص تار عنکبوت کا سہارا لے گا وہ گویا ایک نہایت کچی چیز کا سہارا لیتا ہے۔ اللہ کے سوا تمام قوتوں کی یہی مثال ہے۔