فَكُلًّا
اَخَذْنَا
بِذَنْۢبِهٖ ۚ
فَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَرْسَلْنَا
عَلَیْهِ
حَاصِبًا ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَخَذَتْهُ
الصَّیْحَةُ ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
خَسَفْنَا
بِهِ
الْاَرْضَ ۚ
وَمِنْهُمْ
مَّنْ
اَغْرَقْنَا ۚ
وَمَا
كَانَ
اللّٰهُ
لِیَظْلِمَهُمْ
وَلٰكِنْ
كَانُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ
یَظْلِمُوْنَ
۟
3

فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا ج ”یہ آندھی قوم لوط علیہ السلام پر بھی آئی تھی جو زلزلے سے تلپٹ ہوجانے والی بستیوں پر پتھراؤ کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔ اس سے پہلے قوم عاد پر بھی آندھی کا عذاب آیا تھا ‘ جس کا ذکر سورة الحاقہ میں اس طرح آیا ہے : وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ۔ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ”اور قوم عاد کے لوگ ہلاک کیے گئے تیز آندھی سے ‘ جو ان پر مسلط کردی گئی سات راتیں اور آٹھ دن تک ‘ برباد کردینے کے لیے ‘ پس تو دیکھتا ان لوگوں کو جو گری ہوئی کھجوروں کے تنوں کی طرح پچھڑے پڑے تھے“۔ روایات میں آتا ہے کہ اس ہوا میں کنکر اور پتھر بھی تھے جو گولیوں اور میزائلوں کی طرح انہیں نشانہ بناتے تھے اور وہ آندھی اتنی زور دار تھی کہ انسانوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر پھینکتی تھی۔وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ ج ”اس سے قوم ثمود کے لوگ اور اہل مدین مراد ہیں۔ وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ ج ”اس ضمن میں قارون کا ذکر سورة القصص میں گزر چکا ہے۔وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ج ”غرق کیے جانے کا عذاب دو قوموں پر علیحدہ علیحدہ طریقے سے آیا تھا۔ قوم نوح علیہ السلام کو تو ان کے گھروں اور شہروں میں ہی غرق کردیا گیا تھا ‘ جبکہ فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو محلوں اور آبادیوں سے نکال کر سمندر میں لے جاکر غرق کیا گیا۔