رہے وہ لوگ جو اہل ایمان پر ظلم کرکے ان کو آزماتے ہیں اور برے کام کرتے ہیں تو وہ تو عذاب الٰہی سے بچ ہی نہیں سکتے۔ اگرچہ ان کی باطل قوتیں بہت پھلی پھولی ہوں۔ اگرچہ بظاہر وہ کامیاب و فاتح ہوں۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے اور آخر کار اس کی سنت یہ ہے
ام حسب الذین ۔۔۔۔۔۔ ما یحکمون (4) ” اور کیا وہ لوگ جو بری حرکتیں کر رہے ہیں ، یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے ؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں “۔
کسی مفسد کو یہ خیال نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ بچ نکلے گا یا بھاگ جائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ غلط ہے۔ اس نے غلط اندازہ کیا ہے ، اس کی سوچ پوچ ہے۔ کیونکہ اللہ نے اہل ایمان کی آزمائش کو ایک سنت بنایا ہے لیکن یہ اس لیے کہ سچے اور جھوٹے معلوم ہوجائیں ، اس کی سنت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ بدکاروں کو پکڑتا ہے اور اس کی سنت کبھی بدلتی نہیں ہے۔
یہ اس سورت کے آغاز ہی میں ایک دوسری ضرب ہے ، کہ آنکھیں کھول لو ، اگر اہل ایمان کو آزمائش کی بھٹی سے گزارنا اور کھوٹے اور کھرے کے درمیان تمیز کرنا خدا کی سنت ہے تو بدکاروں اور مفسدوں کو پکڑنا بھی تو اللہ کی سنت ہے اس کے لیے بھی تیاریاں کو لو۔ اور تیسری ضرب ، اس سورت کے آغاز میں یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ سے ملنے کا یقین ہے وہ اطمینان رکھیں اور یقین کرلیں جس طرح ان کے دل یقین کے درجے تک پہلے ہی پہنچ چکے ہیں کہ وقت آنے والا ہے۔