وَعَادًا
وَّثَمُوْدَاۡ
وَقَدْ
تَّبَیَّنَ
لَكُمْ
مِّنْ
مَّسٰكِنِهِمْ ۫
وَزَیَّنَ
لَهُمُ
الشَّیْطٰنُ
اَعْمَالَهُمْ
فَصَدَّهُمْ
عَنِ
السَّبِیْلِ
وَكَانُوْا
مُسْتَبْصِرِیْنَ
۟ۙ
3

اس کے بعد قوم عاد وثمود کی ہلاکت کی طرف اشارہ :

وعادا و ثمودا ۔۔۔۔۔ وکانوا مستبصرین (38)

” اور عاد وثمود کو ہم نے ہلاک کیا ، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔ ان کے اعمال کو شیطان نے ان کیلئے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہ راست سے برگشتہ کردیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے “۔

عاد کے لوگ جزیرۃ العرب کے جنوب میں علاقہ احقاف میں رہتے تھے۔ یہ علاقہ حضر موت کے قریب ہے۔ اور ثمود علاقہ حجر شمالی جزیرۃ العرب میں رہتے تھے۔ اور یہ وادی القری کے قریب علاقہ ہے ، قوم عاد کو تیز رفتار ہوائی طوفان کے ذریعہ ہلاک کیا گیا جو ناقابل کنٹرول تھا اور قوم ثمود کو ایک ہلاکت خیز چیخ کے ذریعہ جس کے بعد زلزلہ آیا۔ ان کے گھر عربوں کو معلوم تھے اور یہ لوگ اپنے گرمیوں اور سردیوں کے اسفار میں ان علاقوں سے گزرتے تھے اور ان کے آثار کو دیکھتے تھے کہ عزت اور اقتدار کے بعد یہ اقوام کس طرح ملیا میٹ ہوئیں۔ یہاں اس مختصر اشارے میں بتا دیا گیا ہے کہ ان کی گمراہی کا راز کیا تھا۔ یہی راز ہے دوسری تمام اقوام کی ضلالت کا۔

وزین لھم ۔۔۔۔۔ وکانوا مستبصرین (98: 37) ” ان کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہ راست سے برگشتہ کردیا اور وہ ہوش و گوش رکھتے تھے “۔ یہ عقلمند تھے۔ ہدایت کے دلائل بھی ان کے سامنے تھے لیکن شیطان نے ان کو خواہشات نفسانیہ کے تابع کرکے ان کے ان اعمال کو ان کے لیے مزین بنا دیا تھا۔ اور ان پر وہ اس راستے سے حملہ آور ہوا جو کھلا تھا۔ یہ کہ وہ سخت مغرور تھے اور اپنے برے اعمال پر فخر کرتے تھے اور ان اعمال کے ذریعہ انہوں نے جو قوت اور مال و متاع جمع کرلیا تھا ، اس کی وجہ سے وہ اعمال انہیں اچھے لگتے تھے۔

فصدھم عن السبیل (98: 38) ” انہیں راہ راست سے برگشتہ کردیا تھا “۔ اور ایمان کا تو یہ واحد راستہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس راہ پر چلنے کے مواقع گنوا دئیے۔

وکانوا مستبصرین (98: 38) ” اور بڑے دانش مند تھے “۔ صاحب فکر و نظر تھے اور عقل و ادراک کی قوتوں کے مالک تھے۔ اب قارون ، فرعون اور ہامان کی طرف اشارہ۔