ولما ان جآءت ۔۔۔۔۔ بھم ذرعا ” پھر جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور تنگ دل ہوا “۔ یہاں ان اوباشوں کی طرف سے مہمانوں پر ہجوم کے واقعہ کو بھی مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ اس موقعہ پر حضرت لوط کے ساتھ ان کا جو مکالمہ ہوا ، اسے بھی کاٹ دیا گیا ہے ، جبکہ وہ اس وقت اس بیماری کے جوش میں تھے۔ یہاں بات کو انجام تک پہنچا دیا جاتا ہے اور آخری انجام کو ذکر ہوتا ہے اس لیے کہ یہ خدائی فرستادے خود بات کو کھول دیتے ہیں اور حضرت لوط کو اپنا تعارف کرا دیتے ہیں کیونکہ وہ شدید اعصابی دباؤ میں تھے اور سخت دل تنگ تھے۔
وقالوا لا تخف ۔۔۔۔۔ کانوا یفسقون (33 – 34)
” انہوں نے کہا ، نہ ڈرو اور نہ رنج کرو۔ ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچالیں گے ، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں “۔ اس گاؤں کے لوگوں پر جو عذاب الٰہی ہو ، اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے کہ حضرت لوط ، ان کے اہل و عیال اور اہل ایمان کے سوا تمام لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ان پر خاک آلود پتھروں کی بارش کردی گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے فرشتوں نے آتش فشانی کا عمل برپا کردیا جس کے نتیجے میں خاک آلود پتھروں کی بارش ہوا کرتی ہے۔ اور اس عذاب کے آثار کو باقی رکھا گیا تاکہ آنے والی اقوام کے اہل عقل و دانش اس سے عبرت لیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ آثار باقی ہیں۔
ولقد ترکنا ۔۔۔۔۔ یعقلون (35) ” اور ہم نے اس بستی کی ایک کھلی نشانی چھوڑ دی ہے ، ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ اور یہ انجام اس قوم کا طبیعی انجام تھا۔ کیونکہ اس کی مثال ایک خبیث درخت اور پودے کی تھی جسے زمین سے زمیندار ہمیشہ اکھاڑ پھینکتا ہے کیونکہ یہ درخت نہ پیداوار دیتا ہے اور نہ زندگی کے لیے مفید ہوتا ہے اس کے ساتھ یہی سلوک ہوسکتا ہے کہ اسے اکھاڑ کر بھوسہ بنا دیا جائے۔ اب قصہ حضرت شعیب (علیہ السلام) :