ولام جآءت رسلنا ابراھیم ۔۔۔۔۔ کانت من الغبرین (31 – 32)
یہ منظر ، ابراہیم (علیہ السلام) اور فرشتوں کا منظر ، یہ منظر یہاں چونک مقصود بالذات نہ تھا ، اس لیے اسے نہایت اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے میں دوسری جگہ یہ بات آگئی ہے کہ انہیں حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی بشارت دی گئی۔ اور حضرت اسحاق کی ولادت تو خوشخبری کا موضوع تھا۔ اس لیے ان باتوں کو ہاں مفصل نہیں دیا گیا کیونکہ مقصود اتمام قصہ لوط تھا۔ یہاں صرف یہ کہہ دیا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے فرشتے اس لیے ہو کر آئے کہ انہیں خوشخبری دے دیں اور یہ بتا دیں کہ وہ کس مہم پر آئے ہیں۔
انا مھلکوآ اھل ۔۔۔۔۔۔۔ ظلمین (29: 31) ” ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ، اس کے لوگ سخت ظالم ہیں “۔ اب حضرت ابراہیم کا جذبہ رحم اور محبت امنڈ آیا۔ انہوں نے فوراً کہا کہ وہاں تو ان کے بھتیجے حضرت لوط بھی رہتے ہیں اور وہ تو ظالم نہیں ، صالح ہیں۔ اللہ کے فرشتوں اور فرستادوں نے جواب دیا کہ ان کو اس مہم کے بارے میں پوری معلومات دی گئی ہیں اور وہ سب باتوں کو جانتے ہیں۔
قالوا نحن اعلم ۔۔۔۔۔۔ من الغبرین (29: 32) ” انہوں نے کہا ، ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہیں۔ ہم اسے ، اور اس کی بیوی کے سوا ، اس کے باقی سب گھر والوں کو بچالیں گے “۔ اس کی بیوی پیچھے وہ جانے والوں میں سے ہے “۔ یہ بیوی قوم کے ساتھ تھی۔ یہ بھی ان کے جرائم اور بد اعمالیوں کی تصدیق کرتی تھی اور یہ عجیب بات تھی کہ عورت کے حقوق پر ایک عورت ڈاکہ ڈالے۔
اب یہ قصہ ایک تیسرے منظر میں داخل ہوتا ہے۔ یہ منظر بھی عجیب ہے۔ یہ فرشتے نہایت خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں حضرت لوط کے پاس آتے ہیں۔ حضرت لوط بھی جانتے ہیں کہ یہ خطرناک مہمان ہیں ، خوبصورت نوجوان اور قوم جس گندی حالت میں۔ لازم ہے کہ یہ لوگ ان مہمانوں کے ساتھ بدسلوکی کریں گے۔ اور وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اپنے مہمانوں کا دفاع کرسکیں اس لیے اس پریشانی سے ان کا دل بھر آیا ، اور ان پر پریشانی اور وحشت طاری ہوگئی۔