ولوطا اذقال لقومہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی القوم المفسدین (28: 29 – 30) ” ۔ “۔ “۔
حضرت لوط کی اس تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس برائی میں کانوں تک ڈوب گئے تھے۔ یہ لوگ ایک ایسی برائی میں مبتلا ہوگئے تھے جس کا ارتکاب ان سے قبل کسی انسان نے نہیں کیا تھا۔ یہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔ یہ ایک انوکھا اور گندہ فعل تھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی فطرت ہی بدل گئی تھی۔ جب بھی کوئی قوم اعتدالا کو چھوڑتی ہے اس کی فطرت بدل جاتی ہے کیونکہ پاکیزہ جنسی تعلق ایک عورت ہی کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے نہایت ہی گھناؤنا جرم قرار دیا گیا۔ عورت کے ساتھ جنسی تعلق بھی بعض اوقات حدود وقیود سے نکل جاتا ہے لیکن وہ ہوتا بہرحال ایک فطری عمل ہے۔ رہی ہم جنس پرستی تو یہ حیوانات سے بھی گری ہوئی حرکت ہے۔ اس میں انسان کی فطری عضویاتی ترکیب کے لحاظ سے بھی فساد ہے۔ اور نفسیاتی لحاظ سے بھی فساد ہے۔ زوجین کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے اس میں جو لذت ہوتی ہے وہ امتداو حیات کے عظیم مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں انسانی حیات کا تسلسل قائم ہوتا ہے اور فریقین جسمانی اور روحانی اعتبار سے اس تعلق سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کے تعلق اور ملاپ کے اندر جسمانی اور عضویاتی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ رہا یہ تعلق جو قوم لوط قائم کرتی تھی۔ یہ غیر فطری ، غہیر فرحت بخش اور بےمقصد تھا۔ اگر اس تعلق میں کسی کو مزہ آتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی فطرت بگڑ گئی ہے۔ اور مسخ ہوگئی ہے اور وہ حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔ یہ لوگ اس برائی کے ساتھ ڈاکے بھی ڈالتے تھے ، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے مالی مفا دات وصول کرتے تھے ۔ پھر وہ اس فعل کا ار تکاب بھی مردوں کو مجبور کر کے کرتے تھے یہ پھر اس فعل بد کی ایک گھناؤنی شکل تھی کہ لوٹ مار کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ساتھ اس بدفعلی کا ارتکاب کرتے تھے
پھر یہ اس منکر فعل کا ارتکاب اپنی مجلسوں میں کرتے تھے ۔ کھلے طور پر اور اجتماعی شکل میں ۔ ایک دوسرے سے ، کتوں کی طرح ، شرم بھی محسوس نہ کرتے تھے۔ فحاشی کا یہ بدترین درجہ ہے۔ فساد فطرت کی یہ انتہا ہے اور یہ رذائل پر اس قدر فخر ہے کہ اس کے بعد کسی اصلاح کی کوئی امید نہیں رہتی۔
یہاں اس قصے کا اختصار کے ساتھ لایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے پہل حضرت لوط نے ان کو نہایت ہی اچھے انداز میں اس سے منع کیا ہوگا۔ انہوں نے اصرار کیا ہوگا۔ حضرت لوط نے ان کو عذاب الٰہی سے ڈرایا ہوگا اور یہ بتایا ہوگا کہ یہ بہت ہی قبیح فعل ہے اور اس کا انجام بھی خوفناک اور عبرتناک ہوگا۔
فما کان جواب ۔۔۔۔۔۔ من الصدقین (29: 29) ” پھر کوئی جواب اس کی قوم کے اس اس کے سوا نہ تھا کہ لے آؤ اللہ کا عذاب ، اگر تم سچے ہو “۔ یہ ہے خود سری اور سرکشی ایک ڈرانے والے نبی کے مقابلے میں ، ایک چیلنچ کے انداز میں تکذیب اور یہ ایک ایسا بگاڑ ہے جس سے کسی خیر کی توقع نہیں رہتی اور نہ اصلاح کی امید رہتی ہے۔ رسول خدا نے ان پر حجت تمام کردی اور اس کے سوا کوئی راہ نہ رہی کہ وہ اللہ سے نصرت طلب کریں جو آخری سہارا ہے۔
قال رب انصرنی علی القوم المفسدین (29: 30) ” لوط نے کہا اے میرے رب ، ان مفسدوں کے مقابلے میں میری مدد فرما “۔ اب یہاں پردہ گرتا ہے۔ منظر پر صرف لوط (علیہ السلام) دعا کرتے نظر آتے ہیں۔ اب ہمارے سامنے اس دعا کی قبولیت کا منظر آتا ہے۔ جن کا ملائکہ کو حکم دیا گیا ہے کہ سدوم کو اوپر نیچے کردو ، انہوں نے اس عمل سے پہلے حضرت ابراہیم کو خوشخبری بھی دی ہے ۔ ایک ایسی بیوی سے صالح بیٹے کی خوشخبری جو بانجھ تھی۔