You are reading a tafsir for the group of verses 29:28 to 29:30
وَلُوْطًا
اِذْ
قَالَ
لِقَوْمِهٖۤ
اِنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ
الْفَاحِشَةَ ؗ
مَا
سَبَقَكُمْ
بِهَا
مِنْ
اَحَدٍ
مِّنَ
الْعٰلَمِیْنَ
۟
اَىِٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ
الرِّجَالَ
وَتَقْطَعُوْنَ
السَّبِیْلَ ۙ۬
وَتَاْتُوْنَ
فِیْ
نَادِیْكُمُ
الْمُنْكَرَ ؕ
فَمَا
كَانَ
جَوَابَ
قَوْمِهٖۤ
اِلَّاۤ
اَنْ
قَالُوا
ائْتِنَا
بِعَذَابِ
اللّٰهِ
اِنْ
كُنْتَ
مِنَ
الصّٰدِقِیْنَ
۟
قَالَ
رَبِّ
انْصُرْنِیْ
عَلَی
الْقَوْمِ
الْمُفْسِدِیْنَ
۟۠
3

حضرت لوط بابل کو چھوڑ کر اردن کے علاقہ میں آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا اور ان کو قوم لوط کی اصلاح کے کام پر مقرر کیا۔ یہ قوم بحر مردار (Dead Sea) کے قریب سدوم کے علاقہ میں رہتی تھی اور امرد پرستی کی غیر فطری عادت میں مبتلا تھی۔اسی نسبت سے دوسری برائیاں بھی ان کے اندر عام ہوچکی تھیں۔ مگر انھوں نے اصلاح قبول نہ کی۔

’’اللہ کا عذاب لاؤ‘‘ کا اصل رخ حضرت لوط کی طرف تھا، نہ کہ اللہ کی طرف۔ انھوںنے حضرت لوط کو اتنا حقیر سمجھا کہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ان کی بات نہ ماننے سے وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے۔ چنانچہ بطور مذاق انھوں نے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ہمارے اوپر خدا کا عذاب لاؤ۔