حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نجات کے بعد بھی یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ حضرت ابراہیم اب اس قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے ہیں جو اس قدر واضح اور بین معجزے کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتی تو قبل اس کے کہ حضرت ان کو الوداع کہیں ان کو آخری حجت کے طور پر ایک حقیقت کے سامنے کھڑا کرتے ہیں :
وقال انما اتخذتم ۔۔۔۔۔۔ من نصرین (25)
” اور اس نے کہا ، تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا “۔
ہم نے بتوں کی بندگی اس لیے اختیار نہیں کی کہ تم عقیدتاً ان کو الٰہ سمجھتے ہو اور تم ان کی بندگی پر مطمئن ہو بلکہ تم اس برائی پر ایک دوسرے کا لحاظ ملاحظہ کرتے ہوئے متفق ہوگئے ہو۔ محض ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ، یہ بندگی کرتے ہو۔ تم میں سے ایک دوست یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کے الہوں کو چھوڑ دے۔ اگرچہ حق واضح ہوگیا ہو۔ اگر کوئی نئی سچائی کو قبول کرلے تو اس صورت میں دو ستیاں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ دوستیاں تم سچائی کی حق تلفی کرکے قائم رکھتے ہو۔ تم سچائی کو نظر انداز کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں دوستیوں کو زیادہ قائم رکھتے ہو۔ تم سچائی کو نظر انداز کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں دوستیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہو ، حالانکہ دعوت اسلامی ایک سنجیدہ امر ہے۔ یہ کوئی نری ، کوئی ڈھیل اور کوئی دوستی قبول نہیں کرتی۔
اس کے بعد ان کے اخروی انجام کے صفحات کھولے جاتے ہیں۔ جن دوستوں کا لحاظ کرتے ہوئے وہ حق کو نظر انداز کر رہے ہیں اور بتوں کی بندگی پر قائم ہیں۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اور ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور یہ دو ستیاں ٹوٹ جائیں گی۔
ثم یوم القیمۃ یکفر۔۔۔۔۔ بعضکم بعضا (29: 25) ” مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے “۔ لیکن یہ لعن و طعن کوئی فائدہ نہ دے گا۔ اس سے تمہارے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی۔
وماوکم النار وما لکم من نصرین (29: 25) ” آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا “۔ اسی آگ میں یہ لوگ رہیں گے جس کے ساتھ وہ حضرت ابراہیم کو جلانا چاہتے تھے لیکن اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کو نجات دے دی رہے وہ تو ان کیلئے نہ نصرت ہے اور نہ نجات۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت دینا چھوڑ دیا۔ یہ معجزہ جو ناقابل شک تھا ، وہ بھی ان کے سامنے آگیا ۔ اس دعوت اور اس ناقابل تردید معجزے کے نتیجے میں صرف ایک شخص مسلمان ہوئے ، حضرت لوط ، ان کی بیوی نے بھی اسلام قبول نہ کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت لوط آپ کے بھتیجے تھے۔ یہی ایک مسلمان حضرت ابراہیم کے ساتھ ایرانیوں کے شہر ار سے ہجرت کرکے اردن سے آگے کے علاقے میں جاکر آباد ہوئے۔