فما کان جواب ۔۔۔۔۔ لقوم یؤمنون (24)
” اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو “ یہ اس سادہ اور قابل فہم دعوت کا جواب ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش فرمائی۔ جو انہوں نے ان کی عقلوں کے سامنے نہایت ہی قابل فہم انداز میں پیش کی ہے جس طرح کوئی پیش کرتا ہے۔
جب کفر اور سرکشی کھل کر سامنے آگئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پوزیشن یہ تھی کہ آپ اس ظلم اور سرکشی کا دفعیہ نہ کرسکتے تھے ، وہ ایک فرد تھے اور ان کا کوئی والی اور مددگار نہ تھا۔ ایک طرف عظیم قوت ہے ، دوسری جانب وہ اکیلے کھڑے ہیں۔ اس لیے ایسے حالات میں دست قدرت بھی کھل کر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ ایک خارق عادت معجزہ نمودار ہوتا ہے۔ ایک ایسا معجزہ جو انسانوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
فانجہ اللہ من النار (29: 24) ” آخر کار اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا “۔ جس انداز میں خارق عادت کے طور پر اللہ نے ان کو بچایا تھا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک معجزہ تھا جو ایمان لانے والے تھے مگر اس کے باوجود اس قوم نے ایمان قبول نہ کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ طے کردیں کہ انہوں نے مان کر نہیں دینا ہے تو معجزات بھی ان کے لیے مفید نہیں رہتے۔ ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے جو ایمان لانے کے لئے تیار ہو ، اسی لیے کہا جاتا ہے :
ان فی ذلک لایت لقوم یومنون (29: 24) ” یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں “۔ پہلی نشانی تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم آگ سے نجات پاگئے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ کفر اور سرکشی اور حکومتی قوت ایک فرد واحد کو اذیت نہ دے سکی۔ تیسرا معجزہ یہ ہے کہ اگر اللہ کسی کو ہدایت نہ دینا چاہے تو معجزات بھی مفید نہیں رہتے۔ اور یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں جو دعوت اسلامی کی تاریخ پر غور و فکر کرتے ہیں اور یہ معلوم کرتے ہیں کہ دلوں کو پھیرنے والا کون ہے اور ہدایت و ضلالت کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔