اولم یروا کیف ۔۔۔۔۔۔۔ واولئک لھم عذاب الیم (19 – 23)
یہ ہر اس شخص کو خطاب ہے جو اللہ کا منکر ہے اور اللہ کے سامنے جو ابدہی کا انکار کرتا ہے ۔ اس خطاب پر اس پوری کائنات کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ اس استدلال کا دائرہ زمین و آسمانوں تک وسیع ہے۔ یہ قرآن کریم کا معروف طرز استدلال ہے کہ وہ اس پوری کائنات کو دلائل و نشانات الہیہ کی نمائش گاہ بنا دیتا ہے اور انسانی قلب و نظر کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کھلی کتاب میں دلائل و آیات الہیہ تلاش کریں۔ اللہ کے وجود ، اس کی وحدانیت اور اس کے وعدے اور وعید کی سچائی تلاش کریں۔ اس کائنات کے یہ مشاہد اور مظاہر تو بر وقت ہماری نظروں کے لیے کھلے ہیں اور حاضر ہیں۔ پیش پا افتادہ ہیں لیکن انسان چونکہ انہیں ہر وقت دیکھتا رہتا ہے ، اس وجہ سے ان کا عادی ہوجاتا ہے اور ان کے اعجاز کا پہلو نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور یہ معجزات چونکہ بار بار دہرائے جاتے ہیں اس لیے انسانی قلب و نظر پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ ان پیش پا افتادہ مناظر اور دلائل اعجاز کو ازسر نو زندہ کرکے اور حسین بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ اس قدر خوبصورت ، حسین اور پر تاثیر بن جاتے ہیں کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ گویا یہ مشاہد و مناظر اس کے سامنے پہلی بار پیش ہوئے ہیں۔ یہ مناظرہ زندہ شکل میں سامنے آتے ہیں اور انسانی قلب و نظر پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان ان کے آثار و نتائج کو اخذ کرتا ہے اور یہی مناظر انسانی وجدان کے لیے دلائل اور براہین بن جاتے ہیں اور ان سے انسانی شعور بےحد متاثر ہوتا ہے۔ یہ طرز استدلال خشک منطقی استدلال کی طرح نہیں ہوتا جس میں محض ظاہری جدل وجدال ہوتا ہے اور ایک مردہ انداز گفتگو ہوتا ہے۔ یہ فلسفیانہ اور منطقی انداز استدلال اسلامی منطق اور شعور کے لیے ہمیشہ نا آشنا رہا ہے۔ اس لیے اسلامی شعور اس سے کبھی گہرے طور پر متاثر نہیں ہوا۔ اسلامی انداز استدلال یہ ہے :
اولم یروا کیف ۔۔۔۔۔۔ اللہ یسیر (29: 19) ” کیا ان لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتداء کرتا ہے ، پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ، یقیناً یہ تو اللہ کے لیے آسان تر ہے “۔ بیشک یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اللہ کس طرح تخلیق کرتا ہے ، ایک چھوٹے سے پودے میں بھی یہ تخلیق نظر آتی ہے ، ایک انڈے اور جنین میں بھی نظر آتی ہے۔ اور ہر اس چیز میں نظر آتی ہے جو نہ تھی اور پھر موجود ہوگئی اور ان میں سے ہر چیز ایسی ہے کہ انسان انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر بھی کوشش کریں تو اس جیسی چیز کی تخلیق نہیں کرسکتے اور نہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ اس کے خالق ہیں۔ اللہ کی تخلیقات تو بہت ہیں ، صرف معجزہ حیات ہی ایک مسلسل معجزہ ہے۔ یہ حیات کس طرح وجود میں آئی ؟ یہ بھی ایک معجزہ ہے ، کسی کی جانب سے ایجاد حیات کا دعویٰ کرنا تو ایک بڑی بات ہے۔ حیات کے بارے میں تو انسان صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کردہ ہے۔ اللہ ہر لمحہ میں اسے دہراتا ہے اور لوگ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہیں اور اسکا انکار بھی نہیں کرسکتے۔
لوگ دیکھتے ہیں کہ اللہ لوگوں کو پیدا فرما رہا ہے تو ان اشیاء کا دوبارہ پیدا کرنا اللہ کے لئے نہایت ہی آسان ہے۔
ان ذلک علی اللہ یسیر (29: 19) ” اور یہ (اعادہ) اللہ کے لیے آسان تر ہے “۔ اللہ کی مخلوقات میں سے تو کوئی چیز اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ انسانی معیار کے مطابق ان سے بات کرتا ہے۔ کیونکہ انسانوں کی مصنوعات میں پہلی صنعت کے مقابلے میں اس کا اعادہ آسان ہوتا ہے ورنہ اللہ کے لیے آغاز و اعادہ یکساں ہیں۔ اللہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہے تو ارادہ متوجہ کرکے کن کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ ذرا کھوکھلی آنکھوں کے ساتھ زمین میں پھرو ، اور اللہ کی آیات و نشانات کو دیکھو۔ زندہ اور مردہ چیزوں میں عجائبات تخلیق الٰہی پر غور کرو ، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کی تخلیق بھی کسی مشقت کے بغیر خود کار طریقے سے ہو رہی ہے۔ اور اعادہ بھی اسی طرح ہوگا۔
قل سیرو فی الارض ۔۔۔۔۔ کل شئ قدیر (29: 20) ” ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتداء کی ہے۔ پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔
زمین میں سرو سیاحت سے انسان کی بصیرت اور بصارت دونوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان ایسے مناظر دیکھتا ہے جو کبھی آنکھ نے نہیں دیکھے ہوتے اور قلب نے کبھی ان پر غور نہیں کیا ہوتا ، اس آیت میں اللہ نے ایک گہری حقیقت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ انسان کسی خطے میں بستا ہے اور اس کے مناظر اور عجائبات اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں لیکن جب وہ سیاحت کرتا ہے تو اس کے احساسات اور قوائے مدرکہ ہر نئے منظر کو غور سے دیکھتے ہیں۔ جدید دنیا اور علاقے میں اسے نئے مناظر و مشاہد متاثر کرتے ہیں۔ اگرچہ اس جیسے مناظر و مشاہد ان سے اچھے مناظر خود اس کے علاقے میں موجود ہوتے ہیں لیکن وہ کبھی ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے۔ جب وہ اپنے علاقے کو واپس آتا ہے تو پھر وہ خود اپنے مسکن کو بھی ایک جدید احساس اور جدید غور و فکر کے ساتھ دیکھتا ہے۔ اس سے قبل وہ جن چیزوں کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا ، اب وہ چند یوم غائب رہنے کے سبب ان کو رحہمی نظر سے دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اب یہ مناظر و عجائبات اس سے از سر نو ہمکلام ہوتے ہیں جبکہ اس سے قبل یہ عجائبات اس کے لیے نہ عجیب تھے اور نہ اس کے ساتھ ہمکلام ہوتے تھے۔
پس پاک ہے وہ ذات جس نے یہ قرآن نازل کیا۔ جو دلوں کی ان راہوں کو جانتا ہے جن کے ذریعے دل کی دنیا پر اثر ڈالا جاسکتا ہے ، عالم نفس کی راہ و رسم سے بھی وہ واقف ہے۔
قل سیروا فی الارض ۔۔۔۔۔ الخلق (29: 20) ” ان سے کہو ، زمین میں چلو پھرو اور دیکھو اس نے کس طرح خلق کی ابتداء کی “۔ یہاں ماضی کے صیغے کے ذریعہ آغاز تخلیق کو بیان کیا گیا ہے۔
کیف بدا الخلق (29: 20) ” اس نے تخلیق کا آغاز کیسے کیا تھا ؟ “ اور اس بات کو تم زمین میں چل پھر کر ، سیروسیاحت کرکے معلوم کرو ، اس سے ایک یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تم زمین میں چل پھر کر آغاز تخلیق الٰہی کو معلوم کرو ، ان چیزوں پر غور کرو جن سے ” حیات “ کی ابتدائی حالت کا پتہ چلے کہ اس دنیا میں آغاز حیات کیسے ہوا آج کل آثار قدیمہ کے بعض علماء زمین کو کھود کر ابتدائی تخلیق کی کیفیت معلوم کرتے ہیں کہ حیات کا آغاز کیسے ہوا اور اس نے کس طرح ترقی کی۔ اور وہ کس طرح پھیلی۔ ان تخلیقات کے باوجود ابھی تک یہ علماء ” حیات “ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکے کہ یہ حیات ہے کیا ؟ یہ کہاں سے آتی ہے ؟ اور اس دنیا پر پہلا زندہ انسان یا مخلوق کیسے آیا۔ یہ سب تحقیقات اور یہ سب آثار دراصل دوبارہ تخلیق پر دلائل ہوں گے۔
اور اس خیال کے ساتھ ایک دوسرا خیال ! کہ آغاز حیات کے آثار و کیفیات معلوم کرنے کے تو وہ لوگ قابل ہی نہ تھے جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ جس طرح آج کل کے لوگ اس کے قابل ہوگئے ہیں کہ آغاز حیات کے آثار و کیفیات کا مشاہدہ کریں۔ لہٰذا اس آیت کا اگر مفہوم یہی ہے تو وہ لوگ تو اس قابل ہی نہ تھے لہٰذا قرآن کریم اپنے پہلے مخاطین سے کوئی اور چیز معلوم کرنے کے لیے کہہ رہا تھا جیسے وہ معلوم کرسکتے تھے۔ اور جس کے معلوم کرنے سے وہ یہ نتیجہ نکال سکتے تھے کہ اس سے وہ نشاۃ ثانیہ کا امکان اخذ کریں۔ لہٰذا ان سے مطلوب یہ ہوگا کہ وہ ہر جگہ نباتات ، حیوانات اور انسان کے آغاز تخلیق کا مشاہدہ کریں اور زمین میں پھریں اور ان کی یہ سیر اور مشاہدہ ان کی قوت مشاہدہ کو تیز کرنے کا باعث بنے جیسا کہ ہم نے پہلے پیرے میں وضاحت کی کہ وہ آثار قدرت الہیہ کا مشاہدہ کریں اور رات اور دن اللہ کی قدرت جن معجزات و نشانات کو ظاہر کر رہی ہے اس پر غور کریں۔
ایک احتمال یہ بھی ہے جو قرآن کریم کے طریقہ کار کے مطابق ہے کہ قرآن ہر دور کے لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق ، اور علم و ثقافت کے لحاظ سے ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق اور ان کے حالات زندگی کے مطابق اور ان کے موجودہ وسائل اکتشاف کے مطابق ، متوجہ کرتا ہے وہ اپنے ظروف و احوال کے مطابق اس کائنات میں پائے جانے والے دلائل قدرت الہیہ پر غور کریں۔ اس طرح زندگی کے حالات کی ترقی کے مطابق قرآن کریم کے مفہوم کے فہم و ادراک میں بھی ترقی ہوگی اور دونوں خیالات میں کوئی تعارض بھی نہ ہوگا اور یہ مفہوم قرآن کے طریق کار کے زیادہ قریب ہے۔
ان اللہ علی کل شئ قدیر (29: 20) ” یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اللہ اس زندگی کا آغاز بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی کرے گا اور یہ اس کی قدرت قاہرہ کے ذریعہ ہوگا۔ اور اللہ کی قدرتیں انسان کی محدود سوچ کے دائرے کے اندر محدود نہیں ہیں۔ نہ اللہ کی قدرتوں کو ان کی سوچ کی محدود و امکانیات کے اندر محدود کیا جاسکتا ہے کیونکہ انسان کی سوچ انسان کے محدود تجربات تک محدود ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جسے چاہے عذاب دے دے اور جسے چاہے اپنی رحمت کے
دائرے کے اندر لے آئے۔ سب لوگوں نے آخر کار اس کی طرف لوٹنا ہے اور اللہ کو اس عمل کے کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی نہ کوئی اس کی ممانعت کرسکتا ہے۔
یعذب من یشآء ۔۔۔۔۔۔ ولی ولا نصیر (29: 21 – 22)
” جسے چاہے سزا دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے اسی کی طرف تم پھیرے جانے والے ہو۔ تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو ، نہ آسمان میں ، اور اللہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے “۔ رحمت اور عذاب دونوں اللہ کی رحمت کے تابع ہیں ، اس طرح کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کا راستہ بیان کردیا۔ اور انسان کے اندر ایسی استعداد پیدا کردی کہ وہ ہدایت و ضلالت کے راستے میں سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ اور اس نے دونوں راستے انسان کے لیے میسر کر دئیے۔ اب اس انسان کی مرضی ہے کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ البتہ اگر وہ اللہ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ نے اپنے اوپر لازم کردیا ہے کہ ایسے شخص کی معاونت کرے اور اگر وہ اللہ کی دلائل سے منہ موڑے اور اللہ کے راستے سے رک جائے تو وہ اللہ سے رابطہ منقطع کردیتا ہے اور اسی اصول کے نتیجے میں اللہ کی رحمت اور اللہ کا عذاب لوگوں کو ملتا ہے۔
والیہ تقلبون (29: 21) ” اور اس کی طرف سے تم پھیرے جانے والے ہو “۔ تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو ، نہ آسمان میں “۔ تمہارے پاس ایسی کوئی قوت نہیں ہے کہ تمام مخلوق کو اللہ کی طرف پھرنے سے روک سکو۔ نہ زمین میں نہ آسمانوں میں ۔ جنات اور فرشتے بھی تمہاری قوت نہیں ہیں۔
وما لکم ۔۔۔۔۔ ولا نصیر (29: 22) ” اور اللہ سے بچنے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے “ اللہ کے سوا کوئی ولی اور مددگار ہے کون ؟ اور کہاں ہے ؟ کوئی ملائکہ ہے یا کوئی جن ہے ؟ یہ تو سب خود اللہ کے بندے ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں۔ یہ اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ دوسروں کے لیے کیا کچھ کر کیں گے۔
والذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ عذاب الیم (29: 23) ” جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کے لیے دردناک سزا ہے “۔ یہ اس لیے کہ انسان اللہ کی رحمت سے تب مایوس ہوتا ہے جب اس کا دل کافر ہو ، اس حالات میں پھر اس کے اور رب کی درمیانرابطہ کٹ جاتا ہے۔ جو بھی کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اس کے اور رب تعالیٰ کے درمیان رابطہ کٹ چکا ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں تروتازگی نہیں ہوتی۔ اس لیے اللہ کی رحمت میں داخل ہونے کے لیے وہ کوئی راہ نہیں پاتا۔ اور پھر انجام بھی متعین ہوتا ہے۔
اولئک لھم عذاب الیم (29: 23) ” ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا ہوتی ہے “۔
اس لمحہ فکریہ کے بعد اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کی طرف سے جواب آتا ہے۔ یہ ضمنی خطاب ہر اس شخص کے غور و فکر کے لیے تھے جو دعوت ایمان کا انکار کرتا ہے ، یہ جواب نہایت ہی مایوس کن اور عجیب ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر و سرکشی کے حاملین کس طرح بر خودغلط ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس اقتدار کی قوت ہوتی ہے۔