آیت 17 اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط ”یہ جو تم نے بت اور ان کے استھان بنائے ہوئے ہیں یہ محض تمہارا افترا ہے۔ اس سب کچھ کی کہیں کوئی سند نہیں ہے ‘ نہ عقلی طور پر اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ کسی کتاب میں !اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ ”اللہ ہی سے رزق مانگو ‘ اسی سے مشکل کشائی کی درخواست کرو اور اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو۔وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہٗط اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ”حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آگیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکہ میں حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔ چناچہ اگلی آیت میں براہ راست مشرکین مکہ سے خطاب ہے :