You are reading a tafsir for the group of verses 29:14 to 29:15
وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا
نُوْحًا
اِلٰی
قَوْمِهٖ
فَلَبِثَ
فِیْهِمْ
اَلْفَ
سَنَةٍ
اِلَّا
خَمْسِیْنَ
عَامًا ؕ
فَاَخَذَهُمُ
الطُّوْفَانُ
وَهُمْ
ظٰلِمُوْنَ
۟
فَاَنْجَیْنٰهُ
وَاَصْحٰبَ
السَّفِیْنَةِ
وَجَعَلْنٰهَاۤ
اٰیَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ
۟
3

درس نمبر 181 ایک نظر میں

سابقہ راؤنڈ میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو لوگ کلمہ ایمان کا اقرار کرتے ہیں ، اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ان کو ضرور آزمایا جائے گا اور مشکلات سے دوچار کیا جائے گا تاکہ سچوں اور جھوٹوں کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ آزمائشوں میں اذیت کی آزمائش ، رشتہ داروں کی آزمائش اور سازشوں اور لالچوں کی آزمائش شامل ہے۔

اس سبق میں ان آزمائشوں کا ذکر ہے جو نوح (علیہ السلام) سے ادھر ہر اسلامی دعوت کے قائدین کو پیش آتی رہی چاہے وہ نبی ہیں یا ان کے متبعین اور ساتھی ہیں۔ دعوت و عزیمت کی اس تاریخ میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہما السلام) کے حالات کو ذرا تفصیل سے لیا گیا ہے اور دوسرے انبیاء کے حالات مجملا بیان ہوئے ہیں۔

ان قصص میں بتایا گیا ہے کہ دعوت اسلامی کی راہ میں قسما قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں آتی رہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل جدوجہد کی اور حاصل نہایت معمولی رہا۔ نو سو پچاس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے۔

فاخذھم الطوفان وھم ظلمون (29: 14) ” آخر کار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے “

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں سرکش حکمران نے یہ صلہ دیا کہ وہ تشدد پر اتر آیا ، حالانکہ آپ نے حتی المقدور ان کی ہدایت کے لیے سعی کی۔ معقول دلائل سے بات کی تو اس قوم کا ردعمل بھی یہ تھا :

فما کان جواب ۔۔۔۔۔ حرقوہ (29: 24) ” پھر ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ” قتل کر دو اسے یا چلا ڈالو اس کو “۔ حضرت لوط کے قصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رذیل لوگ کس قدر خود سر ہوگئے ہیں اور کس قدر بےحیا اور طوطا چشم بن گئے تھے۔ نبی کا بھی کوئی لحاظ اور احترام نہیں کرتے تھے اور انہوں نے انسانیت کو حیوانات کے درجے سے بھی گرا دیا تھا اور وہ گندگی اور رذائل میں مبتلا ہوگئے تھے اور وہ اپنے ڈرانے والے ہمدرد کے مقابلے میں یہ جرات کرتے ہیں۔

فما کان جواب ۔۔۔۔۔ من الصدقین (29: 29) ” اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ کا عذاب ہم پر لے آؤ “۔

حضرت شعیب کے قصے میں بھی اہل مدین کی طرف سے فساد و سرکشی سامنے آتی ہے ، اور وہ سچائی اور حق سے منہ موڑتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔

فاخذتھم الرجفۃ ۔۔۔۔۔ جثمین (29: 37) ” آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے “۔

قوم عاد اور قوم ثمود کی طرف غرور ، قوت اور سرکشی کے مظاہرے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرعون ، قارون اور ہامان کی طرف یہ اشارہ کیا گیا کہ انہوں نے حق کے مقابلے میں مال و دولت ، حکومت ، سازش اور سرکشی کو سرچشمہ قوت سمجھا ان تمام تاریخی قوتوں پر قرآن یہ تبصرہ کرتا ہے کہ یہ قوتیں ، چاہے وہ جس قدر زور دار کیوں نہ ہوں جب سچائی کے مقابلے میں آتی ہیں تو ان کی حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر ہوجاتی ہے۔

کمثل العنکبوت ۔۔۔۔۔ لا کانوا یعلمون (29: 41) ” ان کی مثال مکڑی جیسی ہے ، جو اپنا گھر بناتی ہے ، اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے “۔

درس نمبر 181 تشریح آیات

14 ۔۔۔ تا۔۔۔ 44

ولقد ارسلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وجعلنٰھا ایۃ للعٰلمین (24 – 25)

حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک دعوت دی۔ نبوت عطا ہونے سے پہلے بھی ان کی کچھ زندگی گزری ہوگی جس کا تعین یہاں نہیں ہے اور طوفان کے بعد بھی وہ زندہ رہے تھے ، وہ عرصہ بھی متعین نہیں ہے۔ اس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر بظاہر موجودہ عمر طبیعی سے بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن یہ عمر قرآن نے بتائی ہے جو اس کائنات میں سب سے سچا ذریعہ علم ہے اور اس کی صداقت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ قرآن کی تصریح ہے۔ اس کی توضیح اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس وقت دست قدرت نے طویل عمریں اس لیے رکھیں کہ زمین آباد ہو اور نسل پھیلے۔ جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو پھر لمبی عمر کی ضرورت نہ رہی۔ کئی زندہ چیزوں میں یہ اصول مروج نظر آتا ہے ، اگر کسی زندہ کی تعداد کم ہو تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً شکاری پرندے شاہین وغیرہ اور کچھوے جن کی عمریں اب بھی سینکڑوں سال ہوتی ہیں جبکہ مکھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے زندہ رہتی ہے۔ کسی شاعر نے

کیا خوب کہا ہے۔

بعاث الطیر اکثرھا فراخا وام الصقر مقلاۃ نزور

” کمزور پرندوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں لیکن شاہین کی ماں بہت ہی کم بچے دینے والی ہوتی ہے “۔

یہی وجہ ہے کہ شاہین کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور چھوٹے اور زیادہ بچے دینے والے پرندے کم عمر ہوتے ہیں۔ اللہ کے کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز مقدار کے مطابق ہے۔ بہرحال حضرت نوح کے ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے نتیجے میں ایک قلیل مقدار ہی اسلام میں آئی اور اکثریت کو ان کے ظلم کی وجہ سے طوفان بہا کرلے گیا۔ چونکہ انہوں نے اس قدر طویل ہٹ دھرمی اور سرکشی کی اس لئے اللہ نے ان کو تباہ کیا اور عدو قلیل کو نجات دی جو مومن تھے۔ یہ اصحاب سفینہ تھے۔ انہی سے بعد میں انسانی نسل چلی۔ اور طوفان تمام جہاں والوں کے لیے معجزہ بن گیا اور ایک عرصہ تک ظلم ، شرک اور کفر کا انجام قصہ نوح کے حوالے سے یاد ہوتا رہا۔

نوح (علیہ السلام) کے بعد صدیوں کی تاریخ کو لپیٹ کر قرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات کو لیتا ہے۔