حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ نبوت سے پہلے بھی آپ ایک صالح انسان تھے اور شریعت آدم پر قائم تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپ باقاعدہ خدا کے داعی بن کر اپنی قوم کو ڈراتے رہے۔ مگر سیکڑوں سال کی محنت کے باوجود قوم نہ مانی۔ آخر کار چند اصلاح یافتہ افراد کو چھوڑ کر پوری قوم ایک عظیم طوفان میں غرق کردی گئی۔
ترکی اور روس کی سرحد پر مشرقی اَناطولیہ کے پہاڑی سلسلہ میں ایک اونچی چوٹی ہے جس کو ارارات(Ararat) کہاجاتاہے۔ اس کی بلندی پانچ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر سے اڑنے والے جہازوں کا بیان ہے کہ انھوں نے ارارات کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی پر ایک کشتی جیسی چیز دیکھی ہے۔ چنانچہ اس کشتی تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اہل علم کا خیال ہے یہ وہی چیزہے جس کو مذہبی روایات میں کشتی نوح کہا جاتاہے۔
اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی کشتی کو آج بھی باقی رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کےلیے اس بات کی نشانی ہو کہ خدا کے طوفان سے بچنے کےلیے آدمی کو پیغمبر کی کشتی درکار ہے۔ کوئی دوسری چیز آدمی کو خداکے طوفان سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔