You are reading a tafsir for the group of verses 29:12 to 29:13
وَقَالَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
لِلَّذِیْنَ
اٰمَنُوا
اتَّبِعُوْا
سَبِیْلَنَا
وَلْنَحْمِلْ
خَطٰیٰكُمْ ؕ
وَمَا
هُمْ
بِحٰمِلِیْنَ
مِنْ
خَطٰیٰهُمْ
مِّنْ
شَیْءٍ ؕ
اِنَّهُمْ
لَكٰذِبُوْنَ
۟
وَلَیَحْمِلُنَّ
اَثْقَالَهُمْ
وَاَثْقَالًا
مَّعَ
اَثْقَالِهِمْ ؗ
وَلَیُسْـَٔلُنَّ
یَوْمَ
الْقِیٰمَةِ
عَمَّا
كَانُوْا
یَفْتَرُوْنَ
۟۠
3

آخر میں لوگوں کو گمراہ اور بدراہ کرنے کی آزمائش کا نمونہ آتا ہے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ جزاء و سزا کے بارے میں اہل کفر کا تصور کسی قدر پوچ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو گمراہ کرکے اخروی ذمہ داری خود لیتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں یہ اصل الاصول ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کا انصاف ہے جو اسلام نے واضح طور پر قائم کیا۔ یہ عدل کا زریں اصول ہے۔

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ کانوا یفترون (12 – 13)

یہ بات ، یہ لوگ اس بددیانہ اصول کے مطابق کہتے تھے جس میں جرائم کے سلسلہ میں ذمہ داری اجتماعی ہوا کرتی تھی۔ کسی جرم کا ذمہ دار اور پورا قبیلہ ہوتا تھا۔ اس غلط رواج کے تحت وہ یہ بھی زعم رکھتے تھے کہ آخرت میں شرک کی ذمہ داری بھی وہ اپنے سر لے سکتے ہیں اور اس طرح وہ ان کو جرم کی سزا سے بچالیں گے۔ یہ دراصل آخرت کی جزاء و سزا کے ساتھ مزاح کر رہے تھے۔

اتبعوا سبیلنا ولنحمل خطیکم (29: 12) ” تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے “۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اٹل جواب آج ہے کہ ہر شخص اللہ کے سامنے ضرور حاضر ہوگا۔ ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اور کوئی شخص کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

وما ھم بحملین من خطیھم من شئ (29: 12) ” حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں “۔ اور بتایا جاتا ہے کہ یہ جو لاف زنی کرتے ہیں اس میں جھوٹے ہیں۔

انھم لکذبون (29: 12) ” وہ قطعا جھوٹ کہتے ہیں “۔

ہاں یہ لوگ اپنی گمراہی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے ، شرک کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اس افترا پردازی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ جب دوسرے گمراہ ہونے والے بھی معاف نہ ہوں گے۔

ولیحملن اثقالھم ۔۔۔۔۔ کانوا یفترون (29: 13) ” ہاں وہ ضرور اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے ، اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت بوجھ بھی ، اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افترا پردازویوں کی باز پرس پوگی جو وہ کرتے رہے ہیں “۔ چناچہ اس آزمائش اور فتنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جاتا ہے اور اعلان کردیا جاتا ہے کہ لوگوں کا حساب و کتاب جماعتی صورت میں نہ ہوگا ، فرداً فرداً ہوگا اور ہر شخص اپنے کیے کا ذمہ دار ہوگا۔

کل امری بما کسب رھین ” ہر شخص اس کمائی کا رہن ہوگا جو اس نے کمائی “۔