آیت 12 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط ”اس آیت میں مکہ کے ماحول میں ایمان لانے والے نوجوانوں کے تیسرے اہم مسئلے کی نشاندہی ملتی ہے۔ یعنی رشتوں کے کٹنے اور کہیں کہیں حوصلے کی کمزوری کے اظہار کے علاوہ ایک سنجیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ قبیلے کے بڑے بوڑھے ناصحانہ انداز میں نوجوانوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے تھے کہ دیکھو برخوردار ! تم نوجوان ہو ‘ باصلاحیت ہو ‘ خاندانی کاروبار کے وارث ہو ‘ ایک مثالی کیرئیر اور روشن مستقبل تمہارے سامنے ہے۔ مگر تم جذبات میں آکر ایک ایسا راستہ اپنانے جا رہے ہو جس میں مشکلات ‘ پریشانیوں اور افلاس کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہماری طرف دیکھو ! ہم نے اس دنیا میں ایک عمر گزاری ہے ‘ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ‘ ہم زندگی کے نشیب و فراز اور نفع و نقصان کے تمام پہلوؤں کو خوب پہچانتے ہیں۔ اس نئے دین کی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں ‘ مگر ہم ان کو سن کر جذباتی نہیں ہوئے۔ ہم نے پوری سمجھ بوجھ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا فائدہ اپنے پرانے طریقے اور اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی میں ہی ہے۔ لہٰذا تم ہماری بات مانو اور اپنے پرانے طریقے پر واپس آجاؤ۔ رہی بات آخرت کے احتساب کی تو اس کی ذمہ داری تمہاری طرف سے ہم اٹھاتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی سزا ہوئی تو وہ تمہاری جگہ ہم بھگت لیں گے۔