اب ، مشکلات راہ ایمان ہی کے حوالے سے ایک دوسرا کردار ، کہ جب مشکلات آتی ہیں تو چیختا چلاتا ہے ، لیکن جب اللہ کی طرف سے کامیابی اور فتوحات آتی ہیں تو پھر لمبے جوڑے دعوے کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ چند کلمات میں اس کردار کو بھی نمایاں فرماتا ہے ، یوں کہ ایک واضح تصویر سامنے آجاتی ہے۔
ومن الناس من یقول ۔۔۔۔۔۔ ولیعلمن المنفقین (10 – 11)
لوگوں میں ایسے کردار عام ہیں ، ایسے لوگ لفظ ایمان کو ایک معمولی بات سمجھ کر اقرار کرتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ صرف زبان سے کلمہ پڑھنا ہے ۔ اس کے کچھ تقاضے نہیں۔ لیکن جب اللہ کی راہ میں تکالیف آتی ہیں ، اور یہ آزمائش اس کلمے کی وجہ سے آتی ہیں تو
جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ (29: 10) ” اس آزمائش کو اللہ کا عذاب سمجھتا ہے “۔ اور جزع و فزع اور فرمادیں شروع کردیتا ہے۔ اب اس کی دینی قدریں مختلف ہوجاتی ہیں۔ اس کا عقیدہ متزلزل ہوجاتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہی تو جہنم کا عذاب ہے ، جہنم میں ہیں ہم۔ سوچتا ہے کہ یہی تو عذاب الیم ہے۔ لہٰذا ایمان پر جمنے کی کیا ضرورت ہے۔ آخر جس مصیبت میں ہم ہیں جہنم اس سے کیا زیادہ ہوگی۔ یہ ہوتی ہے اس کی سوچ۔ وہ دنیا کی اس معمولی تکلیف کو عذاب الٰہی سمجھتا ہے۔ حالانکہ جہنم میں وہ عذاب ہوگا جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ، نہ اس کی حدود ہوں گی۔۔ یہ تو تھا اس کا کردار آزمائش میں۔ لیکن اگر خوشیاں ہوں تو۔
ولئن جآء نصر ۔۔۔۔۔ کنا معکم (29: 10) ” اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے “۔ ہم تمہارے ساتھ تھے۔۔ اور مشکلات میں وہ کس قدر ہلکا ، ذلیل اور اس کی سوچ اور اس کے تخمینے کس قدر غلط تھے ۔۔۔ اب تو وہ لمبے چوڑے دعوے کر رہا ہے ، پھولا نہیں سماتا ، اب کہتا ہے۔
انا کنا معکم (29: 10) ” ہم تو تمہارے ساتھ تھے “۔ اور جواب خوب آتا ہے۔
اولیس اللہ باعلم بما فی صدور العلمین (29: 10) ” کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ؟ “ تمہارے دل کی فلم اللہ کے ہاں موجود ہے۔ اللہ کو تو معلوم ہے کہ کون صابر رہا اور کون جزع و فزع کرتا رہا۔ مومن کون ہے اور منافق کون ہے۔ کیا یہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔
ولیعلمن اللہ ۔۔۔۔۔ المنفقین (29: 11) ” اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون ہیں “۔ اللہ تو ان کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور یہ ضرور ظاہر ہوتے رہیں گے۔ یہ آزمائشیں تو آتی ہی اس لیے ہیں کہ کھرے اور کھوٹے جدا ہوں۔ اس منافق کردار کے بارے میں یہاں قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کیے وہ قابل غور ہیں۔ ان الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کردار کو غلطی کہاں سے لگی ہے۔
جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ (29: 10) ” تو لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرف سمجھ لیا “۔ ان کی غلطی یہ نہیں ہے کہ ان پر جو سختی آئی اس کے برداشت کرنے میں ان کا صبر تمام ہوگیا ، کیونکہ بعض اوقات ایک سچا مومن بھی برداشت نہیں کرسکتا ، کیونکہ انسانی طاقت کے بہرحال حدود ہوتے ہیں۔ لیکن ایک سچا مومن انسانوں کی طرف سے آنے والی اذیتوں اور اللہ کے عذاب کے درمیان بہرحال تمیز کرتا ہے۔ وہ اس قدر غلطی نہیں کرسکتا کہ اس فانی دنیا کی کوئی چیز اور اللہ کے ہاں دائمی رہنے والے عالم آخرت کی کوئی چیز برابر ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کا ناقابل برداشت عذاب بھی آخرت کے عذاب الٰہی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مومن کے احساس میں اللہ اور اس کے بےمثال کام میں کوئی چیز اس کے برابر نہیں ہوسکتی یہ ہے فرق مومن اور منافق کے درمیان۔