آیت 88 وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ 7 لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَقف ”جیسے کہ پہلے بھی کئی بار اس نکتے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس نوعیت کے احکام میں اگرچہ صیغہ واحد میں خطاب بظاہر حضور ﷺ سے ہوتا ہے لیکن حقیقت میں آپ ﷺ کی وساطت سے تمام امت مخاطب ہوتی ہے۔کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط ”کیا اللہ کا چہرہ بھی ہے ؟ اور اگر اس کے چہرے کو فنا نہیں ہے تو کیا اس کے کوئی اور اعضاء بھی ہیں جن کو فنا ہے ؟ معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ !یہ بہت اہم اور حساسّ مسئلہ ہے جس کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا ہے۔ یہاں پھر ذہن نشین کرلیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ عالم برزخ ‘ عالم غیب اور عالم آخرت جیسے موضوعات کے بارے میں آیات سے جس قدر مفہوم سمجھ میں آجائے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسے معاملات میں اگر انسان عقل اور منطق کے سہارے ایک ایک کر کے قدم آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا تو غلط راستے پر چل نکلے گا۔ حضرت ابوبکرصدیق رض کا قول ہے : العِجزُ عن درک الذّات ادراک کہ اللہ کی ذات کے بارے میں ادراک سے عجز ہی اصل ادراک ہے۔ یعنی جب انسان یہ سمجھ لے کہ میں اس کی ذات کو نہیں سمجھ سکتا تو بس یہی ادراک ہے اور یہی اللہ کی معرفت ہے۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے اپنے مکاتیب میں یہ الفاظ بار بار لکھے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس بارے میں کوئی تصور بنانا انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ وَجْہَہٗسے کئی لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی بھی مراد لی ہے ‘ جیسے ہمارے ہاں جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں یہ کام فلاں کے منہ کو کر رہا ہوں تو اس اس کا معنی ہوتا ہے کہ اس کی رضا جوئی کے لیے کر رہا ہوں۔ یعنی اس سے شخص کی ذات مراد ہوتی ہے نہ کہ صرف اس کا منہ یا چہرہ۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہرچیز فانی ہے۔