وَمَا
كُنْتَ
تَرْجُوْۤا
اَنْ
یُّلْقٰۤی
اِلَیْكَ
الْكِتٰبُ
اِلَّا
رَحْمَةً
مِّنْ
رَّبِّكَ
فَلَا
تَكُوْنَنَّ
ظَهِیْرًا
لِّلْكٰفِرِیْنَ
۟ؗ
3

آیت 86 وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ ”اس سے ملتا جلتا مضمون سورة النمل میں بھی آیا ہے : وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ ”اے نبی ﷺ ! قرآن تو یقیناً ایک حکیم اور علیم ہستی کی طرف سے آپ پر القا کیا گیا ہے“۔ ظاہر ہے کہ بعثت سے پہلے نہ تو آپ ﷺ اس بات کے امیدوار تھے کہ آپ ﷺ پر قرآن نازل کیا جائے اور نہ ہی آپ ﷺ اس کے لیے کوشاں تھے۔ اس سے پہلے آپ ﷺ کی زندگی ایک صادق و امین ‘ شریف النفس انسان اور ایک ایماندار تاجر کی زندگی تھی۔ اور جو تاجر آپ ﷺ کی اس تاجرانہ زندگی کا اتباع کرتا ہے اس کے لیے آپ ﷺ نے بایں الفاظ بشارت فرمائی ہے : اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ 1 یعنی وہ تاجر جو بالکل سچا ہو ‘ اپنے معاملات میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دے اور امانت دار ہو ‘ وہ قیامت کے روز انبیاء ‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ”یہ تو سراسر اللہ کی رحمت ‘ اس کی عطا اور مہربانی ہے کہ اس نے آپ ﷺ کو نبوت کے لیے چنا ہے اور آپ ﷺ کو یہ کتاب عطا فرمائی ہے۔فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّلْکٰفِرِیْنَ ”اس جملے کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے سورة النساء کے سولہویں 16 رکوع کا مضمون پیش نظر رہنا چاہیے۔ اس رکوع میں حضور ﷺ کے سامنے پیش ہونے والے ایک مقدمے پر تبصرہ ہوا ہے۔ یہ ایک منافق کا مقدمہ تھا جس نے چوری کی تھی ‘ لیکن اس کے قبیلے کے لوگوں نے قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کی بےجا حمایت کر کے چوری کا الزام ایک یہودی کے سر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ چناچہ سورة النساء کی آیت 109 میں متعلقہ قبیلے کے لوگوں کو تنبیہہ کی گئی کہ آج دنیا میں تو تم لوگوں نے اس کی خوب وکالت کرلی ‘ لیکن کل قیامت کے دن ایسے مجرموں کو اللہ کی پکڑ سے کون چھڑائے گا ؟ گویا مسلمانوں کو واضح طور پر بتادیا گیا کہ حق و انصاف کے سامنے خاندانی رشتوں اور قبائلی عصبیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے مکہّ کے اس ماحول کو بھی ذہن میں لائیے جہاں آپ ﷺ کی دعوت کے سبب معاشرہ واضح طور پر دو حصوں میں بٹتا جا رہا تھا۔ رحمی و خونی رشتے منقطع ہو رہے تھے اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ آپ ﷺ کے حقیقی چچا ابولہب نے آپ ﷺ کے ساتھ دشمنی کی انتہا کردی تھی۔ اس پس منظر میں آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی ﷺ آپ ان کافروں کے ساتھ اپنے رشتوں اور تعلقات کو بالکل کوئی اہمیت نہ دیں۔ عصبیت کا کوئی خفیف سا شائبہ بھی آپ ﷺ اپنے دل کے قریب نہ پھٹکنے دیں اور ان مشرکین کے ساتھ بالکل کوئی موافقت اور ہمدردی نہ رکھیں۔ اس سے پہلے اسی سورت القصص کی آیت 17 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بھی بالکل ایسے ہی الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ قبطی کے قتل ہوجانے کے بعد جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی تو اس وقت آپ علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عہد کیا تھا : فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ کہ میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔ چناچہ آیت زیر نظر میں یہی حکم حضور ﷺ کو دیا جا رہا ہے کہ آپ کسی بھی حیثیت ‘ کسی بھی انداز اور کسی بھی درجے میں ان کافروں کے مددگار نہ بنیں۔